ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر پیوٹن کے درمیان الاسکا میں طویل مذاکرات

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن کے درمیان الاسکا میں طویل مذاکرات جو یوکرائن کے مسئلہ پر ہو رہے تھے اور امید تھی کہ ان کے نتیجے میں شاید کوئی جنگ بندی کی راہ نکل آئے کامیاب نہیں ہو سکے مگر آئندہ ملاقات جاری رکھنے کے مشترکہ اعلامیے سے یہ امید بندھی ہے کہ ٹرمپ کی خواہش کے مطابق کوئی نہ کوئی راہ نکل سکتی ہے۔ روس اور یوکرائن کے درمیان جاری جنگ میں ہزاروں جانیں ضائع ہو چکی ہیں، اربوں ڈالر کا مالی نقصان ہو رہا ہے مگر روس جنگ بندی کے بجائے امن کی تجویز پر بھی متفق نہیں۔ اب اگلے مذاکرات میں یوکرائنی صدر ولادیمیر زیلنسکی بھی شامل ہوں گے جبکہ صدر ٹرمپ کہہ رہے ہیں اختلافات کم ہوئے ہیں مگر امن معاہدہ ابھی بہت دور ہے۔ اگر یہی حال رہا تو روس پر مزید پابندیاں لگا سکتے ہیں۔ عالمی سطح پر روس اور یوکرائن کے درمیان امن معاہدہ یا جنگ بندی کا شدت سے انتظار ہے تاکہ اس کے بعد دنیا کے دوسرے خطرناک تنازعات اور معاملات پر بھی توجہ دی جا سکے جن میں سرفہرست اسرائیل فلسطین تنازعہ ہے اور پاکستان اوربھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ یہ دونوں تنازعات بھی اب تک لاکھوں جانیں لے چکے ہیں اور عالمی امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹوں میں شامل ہیں۔ اسرائیل اور بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ متنازعہ معاملات پون صدی سے زائد عرصے سے حل نہیں ہو پائے جبکہ ان کے حل کے لیے اقوام متحدہ میں کئی بار قراردادیں منظور ہو چکی ہیں۔ اگر صدر ٹرمپ روس یوکرائن تنازعہ کو حل کراکر ان دونوں تنازعات پر ثالث کا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو پھر واقعی جیسا کہ ٹرمپ خود بھی کہتے ہیں وہ نوبیل انعام کے حقدار بن سکتے ہیں۔ ان میں سے مسئلہ کشمیر اس لیے بھی زیادہ خطرناک بن چکا ہے کہ پاکستان اور بھارت جوہری صلاحیت کے حامل ملک ہیں اور کوئی بھی چنگاری جنوبی ایشیا کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر سکتی ہے۔