ملک میں نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے بحث چھڑ گئی ،معاشی تھنک ٹینک نے انتظامی ڈھانچے کی اصلاحات کیلئے نئے صوبوں کے 3منظر نامے تجویز کردیے ،پہلے منظر نامے میں 12 ، دوسرے میں 15 سے 20 چھوٹے صوبے ،تیسرے میں 38 وفاقی ڈویژنز ہوسکتے ہیں۔معاشی تھنک ٹینک اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈیویلپمنٹ نے کے مطابق موجودہ انتظامی ڈھانچہ علاقائی معاشی ترقی کی خلیج کو ختم کرنے میں ناکام ہوچکا، پاکستان کے موجودہ انتظامی ڈھانچے دنیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے ہیں۔ صوبوں میں آبادی کے بے تحاشا فرق کی وجہ سے مسائل ہیں، غربت، بے روزگاری اور تعلیم کی شرح میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 12 چھوٹے صوبے قائم کرنے سے ہر صوبے کی آبادی کم ہوکر 2 کروڑ تک ہوجائے گی، 12 چھوٹے صوبوں کے قیام سے صوبائی بجٹ 994 ارب روپے تک ہو جائے گا۔ 15 سے 20 چھوٹے صوبوں کے قیام سے صوبائی بجٹ 600 سے 800 ارب روپے تک ہوجائے گا، ہر صوبے کی آبادی ایک کروڑ 20 لاکھ سے ایک کروڑ 60 لاکھ افراد تک ہوسکتی ہے۔ رپورٹ کے مطا بق 38 وفاقی ڈویژنز قائم کرنے سے ہر ڈویژن کی آبادی 63 لاکھ نفوس تک ہو جائے گی۔ پاکستان کی 24 کروڑ 15 لاکھ آبادی صرف 4 صوبوں میں قیام پذیر ہے۔پنجاب کی آبادی 12کروڑ76لاکھ ۔ سندھ کی پانچ کروڑ 56 لاکھ۔خیبر پختونخواہ کی چار کروڑ آٹھ لاکھ اور بلوچستان کی ایک کروڑ48 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، پاکستان کی اوسط صوبائی آبادی 6 کروڑ سے زائد ہے، صوبوں میں آبادی کے بے تحاشا فرق کی وجہ سے مسائل ہیں، غربت، بے روزگاری اور تعلیم کی شرح میں فرق بڑھتا جا رہا ہے، پنجاب میں غربت کی شرح 30 فیصد اور بلوچستان میں 70 فیصد ہے۔تھنک ٹینک کے مطابق خیبرپختونخوا میں غربت 48 فیصد اور سندھ میں 45 فیصد ہے، آبادی کے دباؤ کی وجہ سے صوبوں کو وسائل کی فراہمی بڑا فرق دکھائی دیتا ہے، پنجاب کو 5 ہزار 355 ارب روپے فراہم کیے جا رہے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کو ایک ہزار 28 ارب روپے مل رہے ہیں، صوبوں میں بے تحاشا آبادی کی وجہ سے معاشی مسائل گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں، چھوٹےصوبوں کے قیام سے بجٹ کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکے گا۔مشیر وزیراعظم برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ایسی بات کہیں نہیں ہو رہی اگر علیم خان سمجھتے ہیں صوبے بننے چاہئیں تو یہ ان کی رائے ہوگی اگر یہ معاملہ کیبنٹ میں زیر بحث آئے یا وزیراعظم رائے طلب کریں تو پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ معاملہ زیر غور ہے ابھی اس طرح کی کوئی بات کسی سطح پر موجود نہیں ہےپیپلز پارٹی شازیہ مری نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے یہ بحث ایک حکمت عملی کے تحت شروع کی گئی ہے کیوں کہ اس کی کسی قسم کی ضرورت نہیں ہے ایسا نہیں ہے کہ مسائل صرف وفاق کے ساتھ ہیں جبکہ وفاق کے مسائل صوبوں نے بہت حد تک ذمہ داریاں لے کر ختم کر دیئے تھے۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ نیا صوبہ بنانے سے متعلق یہی کہا ہے کہ اگر نئے صوبے کی ضرورت ہو تو آئین کے مطابق ہی بن سکتا ہے۔ صوبوں کے پاس بھی کئی ذمہ داری اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں آئی ہیں ان کے پاس بھی کنسٹرینس ہیں اگر اس پر بات ہوتی ہے تو صوبوں کو نقطہ نظر بھی رکھا جائے ایسا نہیں ہے کہ مسائل صرف وفاق کے ساتھ ہیں جبکہ وفاق کے مسائل صوبوں نے بہت حد تک ذمہ داریاں لے کر ختم کر دئیے تھے
