پاکستان کا جواب – آپریشن بنیان المرصوص

پاک-بھارت تاریخی دشمنی کا پس منظر: 1947 میں آزادی کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کشیدگی، بداعتمادی اور دشمنی کا شکار رہے ہیں۔ چار بڑی جنگیں (1947–48، 1965، 1971، 1999) اور متعدد سرحدی جھڑپیں اس کی مثال ہیں۔ اس دشمنی کی جڑیں جموں و کشمیر کے مسئلے، نظریاتی اختلافات اور سیاسی عدم اعتماد میں پیوست ہیں۔
وزیرِاعظم نریندر مودی کے دور میں بھارت کی پالیسیوں پر ہندوتوا اور اکھنڈ بھارت کے نظریات کا اثر نمایاں ہو چکا ہے، جس نے پاکستان کے خلاف جارحانہ رویے کو مزید تقویت دی ہے۔ اندرونِ ملک بھی بھارت معاشی ناہمواری، اقلیتوں پر مظالم اور سیاسی تقسیم سے دوچار ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان دشمن بیانیہ عوام کی توجہ ہٹانے اور قوم پرستی کے جذبات کو ابھارنے کا آسان ہتھیار بن چکا ہے۔
فالس فلیگ اور بے بنیاد الزامات
بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشت گرد حملے کے بعد بھارتی حکومت نے بغیر کسی ثبوت کے حسبِ روایت پاکستان اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) پر الزام عائد کر دیا۔ بھارتی میڈیا نے اسے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور پاکستان کو ’’دہشت گردی کا مرکز‘‘ اور ’’محفوظ پناہ گاہ‘‘ قرار دیا۔
یہ بیانیہ نیا نہیں، بلکہ بھارت کے پرانے طرزِعمل کا تسلسل ہے:
جھوٹا پروپیگنڈا، الزام تراشی اور عوامی جذبات بھڑکا کر سیاسی فائدہ اٹھانا۔
آپریشن سندور کا آغاز
اندرونی سیاسی دباؤ اور اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی خواہش میں بھارتی حکومت نے آپریشن سندور کا آغاز کیا۔ اس آپریشن میں رافیل اور مگ طیاروں، ایس-400 فضائی دفاعی نظام اور ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے اندر مبینہ اہداف کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
لیکن بھارت نے پاکستان کی تیاری، پاک فضائیہ (PAF) کی صلاحیت اور الیکٹرانک وار فیئر (EW) نظام کی طاقت کو کم تر سمجھا۔
پاکستان کا جواب – آپریشن بنیان المرصوص
پاکستان نے نہایت تیزی اور مہارت کے ساتھ آپریشن بنیان المرصوص شروع کیا اور بھارتی فوجی تنصیبات پر بھرپور مگر محدود جوابی وار کیا۔ اہم نتائج یہ رہے:
4 رافیل اور 1 مگ طیارہ تباہ۔
ایس-400 فضائی دفاعی نظام کی 2 بیٹریاں ناکارہ۔
متعدد بھارتی ڈرونز مار گرائے گئے۔
بریگیڈ و بٹالین ہیڈکوارٹرز، اسلحہ ڈپو اور دیگر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔