کہہ دو اگر تم اللہ کی تابعداری رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو تاکہ اللہ تم سے محبت کرے o
القرآن سورہ آل عمران آیت 31
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہر حکم ہمارے لئے ایمان بھی ہے اور ہماری کامیابی کا راستہ بھی۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم دنیاوآخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر ہم سمجھیں تو یہ تمام منزلیں ہمیں عشقِ محمدؐ کے طفیل حاصل ہو سکتی ہیں۔ یہ ان اسلوب کا راستہ ہے جن پر چل کر ہم کامیابی کی اوج ثریا کو تاراج کر سکتے ہیں۔ اس منزل کو پانے کیلئے آپ ؐ کے اعمال حسنہ کی پیروی کرنا ہوگی۔ عشق محمد ؐ کا دعویٰ کرنے والے تو اتباع کرتے ہیں، ان احکامات اور اسلوب کی،جن کیلئے آپ ؐنے راہنمائی کی اور جو آپ ؐکا زندگی کا خاصہ تھی۔ ہمیں ضرور سوچنا چاہیے کہ ہم میں کیا کمی ہے جس کی وجہ سے ہم ذلیل وخوار ہو رہے ہیںاور آفات ہمیں مسلسل گھیرے ہوئے ہیں؟ دیگر امتوں کے لئے اللہ تعالی نے شریعت کے احکامات دیئے جبکہ ہمیں تو اپنے پیارے نبی ؐ کا عملی مجسمہ عنایت کر دیا۔ آپ ؐکی پیروی اور اتباع کو اپنی محبت کا اہل اور رضا کا مستحق ٹھہرایا۔ آپ ؐ کی زندگی کا ہر لمحہ ہمارے لئے چشمہ ہدایت کر دیا۔ ہم میں سے کوئی بھی حکمران ہوں یا مشیر، وزیر ہو یا کوئی حاکم، عدالت ہو یا کسی منصب پر کوئی عامل، عوام ہو یا قانون نافذ کرنے والے، ان سب کا کوئی نہ کوئی کردار ہوتا ہے اور یہ سب آپ کی اسواہ میں نمایاں دیکھا جا سکتا ہے۔ امیر، غریب، دوست، احباب، سوداگر اور اہل علم کا ہر رنگ آپ کی زندگی میں چھلکتا نظر آئیگا۔ ا لغرض تمام انسانوں کیلئے رسول اکرمﷺکی زندگی پھولوں کے گلدستہ کی مانند نمونہ حیات ہے۔ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے اور ایسے تمام امور جو ہماری زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ ؐکی زندگی عملی نمونہ کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے وہ افعال یا اعمال جن سے ہمارے جذبے یا احساس متاثر ہوتے ہیں، کبھی خوشی کبھی غم، کبھی مصائب سے دوچار ہیں تو کبھی مالامال، کبھی ناکام ہیں تو کبھی کامیاب، ان سب حالتوں میں ہمارے جذبات مختلف ہوتے ہیں۔ ان سب کیلئے بھی عملی نمونے کا بھرپور عکس آقائے نامدار ؐ کی زندگی میں چھلکتا نظر آتا ہے۔ عزم واستقلال، شجاعت، صبر، شکر، توکل، رضا، تقدیر، مصیبتوں کی برداشت، قربانی وقناعت، ایثار و خاکساری آپ ؐکی زندگی کے روشن پہلو تھے۔
ایسی شخصی زندگی جو ہر طائف انسانی اور حالتِ انسانی کے مظاہر، جذبات اور کامل اخلاق کا اعلیٰ نمونہ ہو، صرف محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت ہے۔اگر دولت مند ہو تو مکہ کے تاجر کی پیروی کرو۔ غریب ہو تو مقید شعبِ ابی طالب اور مدینہ کے نووارد مہمان کی کیفیت دیکھو، بادشاہ ہو تو سلطان عرب سے رہنمائی سیکھو اور رعایا ہو تو قریش کے ایک محکوم کی زندگی کے حالات دیکھو۔ سپاہ سالار ہو تو بدر وحنین کے سالار کا معرکہ دیکھو، فاتح ہو تو فاتح مکہ کا ایثار ملاحظہ کرو۔ اگر عدالت کے منصب پر بیٹھے ہو تو کعبہ میں سب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کو دیکھو جو حجر اسود کو کعبہ کے کونے میں نصب کر رہا ہے۔ مدینہ کی کچی مسجد کے صحن پر بیٹھے اس منصف کو دیکھو جس کی
نظر میں امیر غریب سب برابر تھے۔ا لغرض ہر انسان کو اپنی زندگی گزارنے کیلئے آپ کی زندگی مکمل نمونہ حیات رکھتی ہے۔
آج امت مسلمہ جن مصائب ومسائل سے دوچار ہے۔ اس کی بڑی وجہ اسوہ حسنہ ؐ سے دوری ہے۔ امت مسلمہ کو جس اتحاد کا حکم اللہ نے دیا، آج اسی اتحاد و یکجہتی سے دور ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے! یہودونصاریٰ تمارے دوست نہیں ہو سکتے مگر افسوس! ہم انہی کی دوستی میں فلاح کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ اپنے وسائل پیدا کرنے کے بجائے، اپنے قدرتی وسائل کوڑیوں کے مول بیچتے ہیں۔ ملت کے اتحاد کا درس اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے دیا اور اسی اتحاد کی طاقت سے کلمہ کے نام پر “پاکستان” حاصل کیا لیکن پھر ہم ٹکڑوں میں بٹ گئے۔ لسانیت، صوبائیت اور فرقہ پرستی کی لعنت سے ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں۔ ہماری اسی نافرمانی کی وجہ سے اللہ ہم سے ناراض تو نہیں؟
یاد کریں وہ وقت جب رسول اللہ ؐ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تھے تو سب سے پہلے اتحاد کا درس دیا تھا۔ دیگر قبیلوں کو بھی ہمنواء بنایا تاکہ اسلام کی پہلی ریاست امن وسکون کا گہوارا ہو۔ اس کے ساتھ ہی معیشت کو بہتر بنانے پر توجہ دی۔ اس خطہ کی معیشت تجارت کی مرہونِ منت تھی۔ آپ نے مدینہ میں باقاعدہ منڈی بنا کر گردونواح کے تمام علاقوں کیلئے مرکزی مقام بنا دیا۔ ہم نے پاکستان حاصل کرنے کیلئے بڑی جدوجہد کی، لاکھوں جانوں کی قربانی کا نذرانہ بھی پیش کیا۔ کیا ہمیں علم نہیں کہ ہمارے اس خطہ کی معیشت کی بنیاد زراعت پر ہے جس کیلئے ذرائع آب بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم نے آبی منصوبوں کو ہی متنازعہ بنا لیا۔ چند سال پہلے ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے عالمی ماہرین تنبیہہ کر رہے تھے، جو اب نمایاں نظر آرہی ہیں۔ گلیشئر پھٹنے اور گلائوڈ برسٹ کے واقعات بھی تیزی سے ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جس سے سیلاب میں دہشت کے مناظر سے پوری قوم پریشان ہے۔ وہ پانی جو زندگی کا مظہر ہے، سیلابوں میں ضائع ہو رہا ہے، بستیاں بھی اجاڑ رہا ہے۔اس سیلابی پانی سے سینکڑوں اموات ہوئیں اور لاکھوں افراد بے گھر بھی ہوئے۔ماہرین مستقبل قریب میں ہمالیہ کے گلیشیئرز کا بڑی تعداد میں صفایا دیکھ رہے ہیں۔ اس سے شدت سے سیلاب آئیں گے بلکہ گلیشئرز کے پگھلنے کے بعد ربیع کے موسم میں دریاوئہں کا پانی بھی خشک دکھائی دے گا۔ہمیں خود احساس کرنا چاہیئے؛ کیا ہماری زندگی آپ ؐ کی سیرت کے مطابق ہے۔
آئیے! عید میلادالنبی ؐ کے موقع پر عہد کریں کہ ہم اپنی زندگی آپ ؐ کے اسوہ حسنہ کے مطابق چلانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
مصطفیٰؐ جان رحمت پہ لاکھوں سلام
