دنیا آج ایک سنگین سیاسی و اخلاقی موڑ پر کھڑی ہے

تحریر : سید جاوید الرحمٰن ترابی
دنیا کے سامنے ایک بار پھر وہی پرانا منظرنامہ ابھر کر آیا ہے جس میں طاقتور فریق کو ہر قسم کی رعایت دی جاتی ہے اور مظلوم کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ بیانات میں کہا کہ حماس کو تین چار دن کے اندر اندر ان کے پیش کردہ امن منصوبے کو قبول کرنا ہوگا، ورنہ “یہ ایک بہت ہی افسوسناک انجام” ہوگا — ایک واضح دھمکی جس نے خطے میں تشویش بڑھا دی ہے دنیا آج ایک سنگین سیاسی و اخلاقی موڑ پر کھڑی ہے، جہاں قوت طاقت، اور ظلم کو سیاست کے نام پر انسانیت پر ترجیح دیتی ہیں۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ پالیسیاں اور بیانات ایک بار پھر ثابت کرتے ہیں کہ طاقتور ممالک اپنے مفاد کو صرف اور صرف سیاسی و جغرافیائی مفادات کی روشنی میں پرکھتے ہیں۔ خاص طور پر ٹرمپ کا “حماس کو فارغ کر دو” جیسے بیانات ایک غیر انسانی رویے کی عکاسی کرتے ہیں، جو نہ صرف فلسطینیوں کی جدوجہد کو نظر انداز کرتے ہیں بلکہ انہیں محض سیاسی شطرنج کا حصہ بنا دیتے ہیں۔
ٹرمپ نے حماس کو تین سے چار دنوں میں ان کے امن منصوبے کو قبول کرنا چاہیے، بصورتِ دیگر سخت نتائج” کا سامنا ہو گا۔ وہ اس منصوبے میں یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ حماس کا عسکری کردار مکمل طورپر ختم دیا جائے اور وہ مکمل مسلح تنظیم کا کردار ادا کرنا بند کرے۔ بلکہ وہ حماس جو اھل فلسطین کی جدوجہد کی علامت ہے اسے کسی بھی قسم کا کوئی کردار دینے سے انکاری ہیں یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ حماس صرف ایک مسلح گروہ نہیں بلکہ ایک سیاسی اور سماجی تحریک ہے جسے فلسطین کے عوام کی ایک بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے استحقاق میں شامل ہیں:
عوامی نمائندگی کا حق — جسے کسی طاقت کے اشارے پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔
• ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت — جو بین الاقوامی قانون کے تحت ایک جائز حق ہے

لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ٹرمپ نے اسرائیل کو کھلے الفاظ میں اس منصوبے کی حمایت دینے کی بات کہی ہے، اور کہا ہے کہ اگر حماس اس کو قبول نہ کرے تو اسرائیل کو مذید کھلی چھٹی دے دی جائے گی ٹرمپ نے اپنی پالیسی میں اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ اگر حماس ان کی شرائط نہ مانے تو اسرائیل کو مکمل آزادی دے دی جائے گی کہ وہ فلسطینیوں پر مزید ظلم ڈھائے۔ یہ دراصل وہی پرانا طرزِ فکر ہے جس نے مشرقِ وسطیٰ کو آگ و خون میں جھونکا ہے
• کسی تنظیم کو مجبور کرنا کہ وہ اپنے تمام بنیادی انسانی اور سیاسی حقوق ترک کر دے، ایک تشدد پر مبنی رویہ کی شکل ہے، جو انسانی وقار اور جمہوری حیثیت کے منافی ہے۔ جسکا علمبردار خود امریکہ ہے
• ایک طرف ٹرمپ حماس کو غیر انسانی قرار دیتا ہے، دوسری طرف وہ اسرائیل کی عسکری کاروائیوں قتل عام معصوم بچوں اور عورتوں کے قتل عام پر مذمتی بیان تک دینے کا روادار نہیں ہے اور اپنے اپ کو منصف کہتا ہے ۔ بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ اگر حماس منصوبہ قبول نہ کرے تو وہ ، اسرائیل کی مکمل حمایت کرے گا فلسطینی عوام نے طویل عرصے سے اپنی سرزمین، شناخت اور آزادی کے لیے جدوجہد کی ہے۔ حماس کو صرف عسکری تنظیم کے طور پر پیش کرنا، درحقیقت اخلاقیات سے عاری ہونے کے مترادف ہے حقیقت یہ ہے حماس صرف ایک مسلح گروہ نہیں بلکہ ایک سیاسی اور سماجی تحریک بھی ہے، جسے فلسطینی عوام کے ایک حصے کی حمایت حاصل ہے۔ اس کی بے دخلی یا اس کے سیاسی اثاثے یکطرفہ طور پر ختم کرنا، مقامی عوامی حقِ رائے کو کچلنے کے مترادف ہوگا فلسطینی عوام اپنی بقا، آزادی اور زمین کے تحفظ کے لیے لڑ رہے ہیں۔ یہ جدوجہد محض عسکری یا سیاسی نہیں بلکہ یہ ایک انسانی جدوجہد ہے۔ ٹرمپ اور ان جیسے رہنما اگر انصاف کے حقیقی داعی ہوتے تو وہ دونوں فریقوں کو یکساں سطح پر بٹھاتے اور ایک منصفانہ حل تلاش کرتے۔ مگر ان کا جھکاؤ صرف اور صرف اسرائیل کی جانب ہے
•اس پورے عمل میں ٹرمپ اور امریکہ نے ایک فریقانہ اور جانبدارنہ موقف اختیار کیا ہے، جو بظاہر امن کی بات کرتا ہے مگر درحقیقت ایک طاقتور ریاست کی ترجیحات کے مطابق اپنے اپکو پیش کرتا ہے۔
حماس صرف ایک مسلح جماعت نہیں؛ وہ ایک سیاسی اور سماجی تحریک بھی ہے، جو فلسطینی عوام کی ایک بڑی تعداد میں مقبولیت رکھتی ہے اور انہیں ایک موقف دیتی ہے۔
1.فلسطین کا ایک بڑا حصہ حماس کی قیادت کو انتخابی طور پر سپورٹ کرتا ہے، اور اسے سیاسی پلیٹ فارم پر نمائندگی کا حق دیتا ہے جسے تسلیم نہ کرنا عوام کی رائے کو دبانےکے مترادف ہے۔ حماس کی قیادت نے انتخبات میں کامیابی حاصل کر اسے نہ صرف ثابت کیا ہے بلکہ درحقیقت حماس اہل فلسطین کے لئے خدمت کا استعارہ بن چکی ہے یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ حماس صرف ایک مسلح گروہ نہیں؛ وہ ایک سیاسی و سماجی تحریک بھی ہے جسے فلسطینی ووٹر کے ایک بڑے حصے کی تائید حاصل رہی ہے۔ کسی بھی فریق سے یہ تقاضا کہ وہ اپنی سیاسی شناخت اور نمائندگی سے دستبردار ہو—اور وہ بھی بیرونی دباؤ پر—یہ نہ جمہوری اقدار سے ہم آہنگ ہے نہ بین الاقوامی انصاف کے اصولوں سے۔ یہ عوامی رائے کو غیر مؤثر بنانے اور مزاحمت کے حق کو جرم ٹھہرانے کے مترادف ہے،
2. اسرائیلی جارحیت اور مظالم کے خلاف اپنا اور اپنی زمین کا دفاع و مزاحمت کسی صورت میں نہ ہی قابل ملامت ہے اور نہ ہی کوئی مجرمانہ فعل بلکہ یہ ایک انسانی حق ہے۔ جبر، محاصرہ اور عسکری ظلم کا مقابلہ کرنا فلسطینیوں کا بنیادی حق ہے۔ غزہ میں بمباری، جبری انخلاء کے احکامات، قحط اور امداد کی ترسیل میں رکاوٹ—یہ سب مل کر ایک دھڑکتے انسانی المیے کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ تازہ رپورٹنگ کے مطابق وسیع پیمانے پر ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور قحط سے اموات کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ ایسے ماحول میں اگر امن منصوبہ جانبدار شرائط کے ساتھ پیش ہو تو وہ پائیدار امن نہیں لا پاتا؛ بلکہ عدم اعتماد مزید گہرا ہوتا ہے
3. اگر ٹرمپ حقیقت میں مسئلہ فلسطین حل کروا کر نوبل پرائز اپنے نام کرنا چاھتا ہے تو پھر اسے سب سے بنیادی فریق اھل غزہ اور انکی نمائندہ حماس سمیت تمام فریقوں کو مذاکرات اور شفاف عمل میں شامل کرنا چاہیے، نہ اس طرح کہ اسرائیل کی حمایت میں اس بنیادی فریق کو دھمکیاں دے
ٹرمپ کا رویہ نہ صرف فلسطینی عوام کے حقوق کو پامال کرنے کی کوشش ہے بلکہ یہ عالمی انصاف اور انسانی وقار کی اقدار کی بھی نفی کرتا ہے۔ اگر امریکی قیادت واقعی امن کا خواہاں ہے تو اسے یکطرفہ اختیارات اور دھمکیوں کی بجائے مشترکہ مکالمے، مساوات اور بین الاقوامی ضوابط کا احترام کرنا چاہیے۔ جب اسرائیل کو کھلی سفارتی/سیاسی چھوٹ ملے اور فلسطینی فریق کو شرائط کی دیوار میں گھیر دیا جائے تو یہ دوہرا معیار بن جاتا ہے۔ طاقتور کی عسکری کارروائیاں ’’دفاع‘‘ کہلائیں اور مظلوم کی مزاحمت ’’غیر انسانی‘‘—یہ تعریفیں اخلاقی اعتبار سے کھوکھلی اور عملی طور پر غیر مؤثر ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جنگ بند نہیں ہوتی؛ صرف نام بدل کر جاری رہتی ہے
۔ اس طرزِ عمل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بڑی طاقتیں انصاف اور انسانیت کے بجائے محض اپنے سیاسی و معاشی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں۔ اگر دنیا کو واقعی امن چاہیے تو فلسطینی عوام کے جائز حقوق کو تسلیم کرنا ہوگا اور حماس سمیت تمام نمائندہ قوتوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھانا ہوگا

یہاں ایک سوال بڑا اہم ہے: جب ٹرمپ جیسا زورآور فریق کھلے الفاظ میں حماس کو “فارغ” کرنے کی دھمکی دے رہا ہے تو مسلم حکمرانوں کی عمومی خاموشی اور بصیرت سے عاری سفارتی حکمت عملی کی کہاں ختم ہوتی ہے اور مجرمانہ غفلت کہاں شروع؟ بعض مسلم ریاستیں بظاہر بیانات یا تقاریر جاری کر دیتی ہیں، مگر عملی سطح پر موثر اقدام یا واضح احتجاج نظر نہیں آتا۔ یہ خاموشی صرف اخلاقی ناکامی نہیں — اس کا سیاسی نتیجہ بھی براہِ راست فلسطینی عوام اور ان کی نمائندگی کو نقصان پہنچاتا ہے
افسوسناک امر یہ ہے کہ ٹرمپ کے اس کھلے جبر پر مسلم دنیا کے حکمران تقریباً خاموش ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ٹرمپ کو یہ کہنے کی جرات نہیں کرتا کہ فلسطینیوں کو بھی مساوی سطح پر سنا اور بٹھایا جائے۔ یہ حکمران اپنے عوام کے جذبات سے کٹے ہوئے ہیں اور خاموش تماشائی بن کر مغرب کے مفادات کی پاسداری کرتے ہیں۔ یہ خاموشی دراصل ایک مجرمانہ کردار ہے، کیونکہ یہ فلسطینی عوام کو تنہا چھوڑنے کے مترادف ہے
خاص طور پر پاکستان، جو خطے میں اہم مسلم ملک اور نیوکلیئر طاقت کے طور پر پہچانا جاتا ہے، خاموش تماشائی بن کر کیوں رہے؟ پاکستان کی اسٹریٹجک حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے — اور یہ حقیقت کہ وہ نیوکلیئر ریاستوں میں شمار ہوتا ہے — اس پر عالمی و مسلم دنیا میں مؤثر اور اخلاقی کردار ادا کرنے کی توقع ہونی چاہیے۔ (عالمی رپورٹس پاکستان کو نیوکلیئر حامل ریاست کے طور پر شمار کرتی ہیں۔)
پاکستان کو چاہے صرف بیانات تک محدود نہیں رہنا چاہیے — کم از کم مسلم ممالک کی مشترکہ سفارتی کوششیں، اقوامِ عالم میں واضح اور مستقل احتجاج، اور فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کے دفاع کے لیے عملی اقدامات کا ایک مربوط پروگرام اختیار کرنا ضروری ہے۔ خطے کے امن کے تقاضے یہ ہیں کہ صرف نعرے بازی سے کام نہیں چلے گا؛ سیاسی دباؤ، بین الاقوامی فورمز میں یکساں موقف اور مسلم اتحاد سے ہی ایسے یکطرفہ دباؤ کا مقابلہ ممکن ہے
پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، اور اسے صرف نعروں یا رسمی بیانات تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ پاکستان کی عالمی و مسلم دنیا میں پوزیشن کا تقاضا ہے کہ وہ مؤثر سفارتی اقدامات کرے، مسلم ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرے اور فلسطینی عوام کے حقِ نمائندگی اور خودارادیت کی کھلی و واضح حمایت کرے۔ اگر پاکستان اور دیگر مسلم ممالک خاموش رہے تو تاریخ انہیں بھی فلسطینی عوام کے ساتھ بے وفائی کا مجرم ٹھہرائے گی
ٹرمپ کی دھمکی اور اسرائیل کو دی گئی کھلی چھوٹ نہ صرف فلسطینی عوام کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی دھچکہ ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلم حکمرانوں کی خاموشی ناقابلِ معافی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان سمیت مسلم دنیا اپنی ذمہ داری نبھائے اور فلسطین کے مظلوم عوام کے حق میں کھل کر اور عملی طور پر کھڑی ہواور اس طرزِ عمل کو اگر مسلم حکمران حقیقتاً سنجیدگی سے نہ لیں تو نتیجہ فلسطینی حقوق کی مزید پامالی اور عالمی انصاف کے معیار کی کمزوری ہو گا۔ پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کو اخلاقی اور اسٹریٹجک طور پر ذمہ داری اٹھاتے ہوئے فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی واضح و متحدہ حمایت کرنی چاہیے ٹرمپ کا الٹی میٹم اور اسرائیل کو کھلی سفارتی چھتری—یہ دونوں عناصر امن سے زیادہ دباؤ کو بڑھاتے ہیں۔ پائیدار امن اسی وقت ممکن ہے جب فلسطینی نمائندگی کو برابر کی سطح پر تسلیم کیا جائے، سیاسی عمل میں سب کو شامل کرے اور انسانی بحران کو فوری طور پر روکا جائے۔ مسلم قیادت—خصوصاً پاکستان—اگر واقعی تاریخ کے سامنے سرخرو ہونا چاہتی ہے تو اسے بیانات سے آگے بڑھ کر منصوبہ بند سفارت، قانونی اقدام اور انسانی امداد کے ذریعے ایک صالح، تعمیری راہ نکالنی ہوگی۔ بصورتِ دیگر خاموشی بھی تاریخی جرم شمار ہوگی— ورنہ تاریخ انہیں بھی خاموشی کا حساب دے گی