ہندوستان نے بات چیت کے تمام روزن بند کر دیے ہیں۔ یہاں کی 12 مہاجرین سیٹوں کو پکڑے ہوئے ہیں ۔ کیا بو العجبی ہے ؟

تنازعہ جموں وکشمیر کی دلیل آزاد جموں وکشمیر کی 12 نشستوں سے نہیں بنتی ہے جو پورے پاکستان میں پھیلائی گئی ہیں۔ یہ نشستیں 1974ء کے عبوری دستوری ایکٹ کی پیداوار ہیں جو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے لائی تھیں اور کشمیر کونسل بھی قائم کردی گئی تھی جس کا چیئرمین وزیر اعظم پاکستان خود ہوتا ہے۔ یہ کونسل اسمبلی کے مقابلے میں طاقتور ہے اور بھاری ہے۔
مسئلہ کشمیر مہاجرین کی وجہ سے نہیں ہے۔ اگر مقبوضہ کشمیر کے مہاجرین پاکستان نہیں آئے ہوتے تو کیا مسئلہ کشمیر نہیں ہوتا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادیں کی رو سے رائے شماری کا انعقاد کل ریاست جموں وکشمیر میں ہوگا جس میں سابق صوبہ جموں اور سابق صوبہ کشمیر اور فرنٹیئر اضلاع ریاست اور گلگت ایجنسی شامل ہیں نہ کہ صرف مقبوضہ کشمیر۔
ایک اہم بات ہے کہ ہندوستانی جبر و اکراہ یا تحریک کے چلانے کے لئے اگر کوئی شہری مقبوضہ جموں وکشمیر سے لائن آف کنٹرول کے بجائے کسی اور طریقے سے یا کسی پاسپورٹ کے ذریعے سے پاکستان آگیا تو جب حکومت نے اسے شہریت کی نوٹیفکیشن ایشو ع کی تو اسے یہ سند دیتے اقرار کرایا گیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر سے جبر سے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے پاکستان آیا۔ اس کو کیا کہیں شرارت یا محبت؟ کشمیری شہریت یا کشمیری مہاجر کی سرٹیفکیٹ بھی بمشکل دی جاتی ہے۔ اس کے لئے سالہاسال انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بڑی مشکل سے آزاد کشمیر میں کشمیری مہاجرین کو ووٹ اور شناختی کارڈ کا حق آزاد کشمیر کی کورٹ نے دیا تھا۔
البتہ مہاجرین کی سیٹوں کے لئے من پسند ووٹر جعلی پیدا کرائے گیے یہاں تک کہ مہاجرین سیٹوں کے لئے ممبر اسمبلی بھی غیر ریاستی اور پرانے امرتسر ی ہندوستانی مہاجرین بنایے گئے۔ 12 مہاجرین نامی ممبران اسمبلی نے تحریک آزادی کے لئے گزشتہ 60 یا 50 سالوں میں کیا کارنامے ا نجام دیے یہ ایک مضحکہ خیز کہانی ہے۔ آزادی کی تحریک اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی خون آشام جدوجہد کا ثمر ہے باقی سب کچھ صفر ہے۔ اس لئے مسئلہ کشمیر اور تحریک آزادی کے حال و مستقبل پر حقائق کی روشنی میں سوچنے اور لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ذرا دیکھیے کہ 2019 کے کشمیر سے متعلق ہندوستانی فیصلے سے پہلے کوئی کشمیری یا پاکستانی 370 کی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا۔ اس دفعہ کو ٹھکراتے تھے اور آج کا حال یہ سب لوگ اور لیڈر 370 اور 35 اے اور statehood سے آس لگائے بیٹھے ہیں لیکن ہندوستان نے یہ دروازہ بلکہ بات چیت کے تمام روزن بند کر دیے ہیں۔ آپ یہاں کی 12 مہاجرین سیٹوں کو زور سے پکڑے ہوئے ہیں ۔ کیا بو العجبی ہے ؟