کچہری
میاں منیر احمد
بس ایک بندر کہانی سن لیجئے
ٹرمپ ہو یا نیتن یاہو‘ نام آپ کچھ بھی دے سکتے ہیں‘ بنیادی طور پر دنیا کا استعمار اس کہانی کا مرکزی کردار ہے‘اگر یہ کہانی آج کے حالات کی مطابقت کے گھیرے میں آرہی ہے تو بس اسے اتفاق ہی سمجھیے‘ ایک زمانہ گزرا ہے کہ انسانوں کی بستی سے دور کہیں بندروں کی بستی تھی‘ یہ سب وہاں اپنے حال میں مست تھے ایک بندر‘ جس نے کچھ دیگر معاشروں سے متعلق سن رکھا تھا‘ اس نے سوچا کیوں نہ براہ راست حالات سے آگاہی لی جائے‘ وہ جنگل سے نکلا اور تحقیق کی غرض سے انسانوں کی بستی میں جا پہنچا‘ کچھ عرصہ گزارنے کے بعد اپنی بستی میں واپس پہنچا تو بندروں نے اسے گھیر لیا اور احوال جاننے لگے کہاں سے آئے ہو کیا دیکھا ہے؟ بتایا ایک ایسی مخلوق دیکھ کر آیا ہوں‘ جو خود کو انسان کہتی ہے‘ ہے وہ ہمارے ہی جیسے ہیں مگر دم نہیں ہے‘ہاتھ پاؤں بھی ہمارے جیسے ہی ہیں تاہم دو پاؤں پر چلتے ہیں‘ ان میں نر بھی ہیں اور مادہ بھی‘ بندروں نے یہ بات سنی تو اٹھ کھڑے ہوئے‘ محفل بھی ختم ہوگئی مگر یہ قصہ بستی میں چلتا رہا‘ کچھ بندر پریشان‘ کچھ حیران اور پھر اسی قصے کو لے کر ٹولیاں بیٹھ جاتی اور گھنٹوں اسی پر بحث ہوتی‘ ایک روز ایک بندر اٹھا اس نے ٹھان لیا کہ وہ یہ سب کچھ جان کر ہی رہے گا تاکہ گمراہ کن پراپیگنڈے کا جواب تلاش کرکے بندروں کی بستی کو بے راہ رو ہونے سے بچایا جائے‘ وہ اسی بندر کے پاس جا پہنچا جو انسانوں کی بستی سے ہوکر آیا تھا‘ اور پوچھا سچ سچ بتاؤ کیا دیکھ کر آئے ہو؟ اس نے کہا اگر سچ سننا چاہتے تو پھر پوری طرح توجہ دو‘ انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو خود کو اشرف المخلوقات کہتی ہے‘جنگل کاٹ کر وہاں اپنی بستیاں آباد کرتی ہے‘ گھر تعمیر کرتی ہے اور انہی گھروں میں رہتی ہے‘ درخت کاٹ کر گھر تعمیر کیے جاتے ہیں‘ آسمانوں پر جہاز اڑتے ہیں‘سمندروں میں کشتیاں تیرتی ہیں‘ راہ گزر پر قبضے کیے جاتے ہیں‘ پھر ان پر پلازے تعمیر کیے جاتے ہیں‘ پلازے؟ یہ پلازے کیا ہوتے ہیں‘ پاگل وہاں سب انسان ایک ہی چھت کے نیچے خریداری کرتے ہیں‘ سبزی بھی لی جاتی ہے اور جوتے بھی‘ بچوں کے لیے ایک چھوٹا سا پارک بھی‘ چھت کے نیچے بچوں کا پارک‘ یہ کیسے ممکن ہے؟ تو پھر وہ بچے کھیلتے ہوئے آسمان نہیں دیکھتے کیا؟ یہ بہت ہی بری بات ہے‘ تو بہ توبہ…… ایسا معلوم ہوتا ہے یہ آسمان سے ڈرتے ہیں اور فطرت سے لڑتے ہیں‘ گھر تعمیر کرکے سمجھتے ہیں کہ خطرات سے محفوظ ہوگئے‘ اس بندر نے بھی اب ٹھان لیا کہ وہ بھی ایسی بستی دیکھ کر آئے گا‘ اس سے رہا نہ گیا وہ وہ بھی ایک رات چپکے سے اٹھا اور اپنی بستی سے باہر نکل گیا‘ صبح جب سب اٹھے بیدار ہوئے تو وہ غائب تھا‘ اس کے ہم جولی پریشان ہوئے کہ کہاں نکل گیا ہے‘ یا اسے زمین نگل گئی ہے‘ کچھ پتہ نہ چلا اس کا‘ چند ماہ کے بعد وہ خود ہی واپس آگیا‘ اب بندروں کی بستی نہال ہوگئی‘ اس سے پوچھا کہاں سے آئے ہو‘ بولا انسانوں کی بستی سے ہوکر آیا ہوں‘ اچھا تو پھر کیسی ہے یہ بستی؟ بولا انسان تو کمال کے لوگ ہیں‘ یہ بات سن کر محفل میں تجسس بڑھ گیا‘ سب مذید سمٹ کربیٹھ گئے‘ بولا کہانی تو بہت مزے کی ہے‘ ذرا سنو! میں کچھ عرصہ تو ان سے الگ تھلگ ہی رہا‘ درخت وہاں تھے نہیں‘ لہذا میں منڈیروں پر ہی اچھلتا کودتا رہا‘ اچھا درخت نہیں ہیں انسانوں کی بستی میں‘ محفل میں سے کسی ایک بندر نے منہ بسور کر لقمہ دیا‘ بڑ بڑایا یہ کیسی بستی ہے؟ وہ انسانوں کی بستی میں جو خوبیاں‘خامیاں اور کمزوریاں دیکھ کر آیا تھا اس نے وہ سب بیان کردیں‘ بندروں کی بستی میں تو کہیں لالچ‘ قبضہ مافیا تو تھا نہیں‘ اس نے جو کچھ انسانوں کی بستی میں دیکھا من و عن بیان کردیا‘ اب بندروں میں تجسس بڑھا کہ کہ ایسی مخلوق جو خود کو اشرف المخلوقات سمجھتی ہے‘ دعوی بھی کرتی ہے ان میں کیسے کوئی قبضہ مافیا ہوسکتاہے‘ اس نے کہا یہ تو کچھ بھی نہیں‘ وہاں تو ایک ایسی چیز بھی دیکھی ہے جس سے ایک ہی آدمی دو دو نظر آتے ہیں‘ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ انسانوں نے ایک دھات بنائی ہے جسے وہ آئینہ کہتے ہیں‘ بس میں اس میں دیکھو تو اندر سے باالکل ویسا ہی انسان‘ ویسا ہی چہرہ نظر آتا ہے‘ جیسا انسان آئینہ سے باہر باالکل ویسا ہی انسان آئینے کے اندر‘ تو پھر اصلی کون ہوا؟ اندر والا یا باہر والا؟ یہ سوال تو بہت چھبتا ہوا تھا‘ جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ وہ تھوڑا سا ٹھٹھک گیا‘ اس نے اپنا ماتھا تھپتھپایا اور بولا یار میری بات سنو‘ آپ لوگ آئینے کی بات بھول جاؤ‘ کہ جیسے یہ بات ہوئی ہی نہیں‘ ان میں ایک بولا کیسے بھول جائیں‘ میں تو خود جاؤں گا اور یہ آئینہ لے کر بستی میں آؤں گا‘ اس کی بات سن کر سب نے اس کی منت سماجت شروع کردی‘ وہ نہ مانا‘ پھر اس کی نگرانی شروع کردی‘ بہر حال ایک روز وہ موقع پاکر بستی سے نکل ہی گیا اور اب بند سارے پریشان ہیں کہ اگر وہ آئینہ لے کر بندروں کی بستی میں واپس آگیاتو پھر یہاں تو ہنگامہ اور ایک فساد برپا ہو جائے گا کہ ہم میں سے جو بھی آئینمہ دیکھے گا اس کو دو ہی نظر آئیں گے کوئی پتا نہیں چلے گا کہ اصلی کون ہے اور نقلی کون؟ اللہ ہم سب کو کسی ایسے سفر سے بچائے اور کسی ایسے آئینے سے محفوظ رکھے جس سے ایک ہی انسان دو دو نظر آئیں اور اس کے بعد یہ سوال اٹھ کھڑا ہو کہ اصلی کون ہے اور نقلی کون ہے؟ بس جس نے بھی یہ کہانی سمجھ لی اس نے حقیقت بھی پالی
