ڈاکٹر منصور احمد
ہم اس وقت ایک فکری و روحانی آزمائش کے دور سے گزر رہے ہیں ، ایسا زمانہ جس میں حق اور باطل، سچ اور جھوٹ، خلوص اور مفاد میں تمیز کرنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان کے موجودہ داخلی و بیرونی حالات، امتِ مسلمہ کے فکری انتشار اور معاشرتی ابتری کو دیکھتے ہوئے یہ ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے کہ علمائے حق اور علمائے وقت اپنا مثبت، اصلاحی اور رہنمائی پر مبنی کردار ادا کریں۔
یہ دور خاموشی یا پسپائی کا نہیں بلکہ خیر و اصلاح کے ابلاغ کا وقت ہے۔
جہاں کہیں دین، معاشرہ یا وطن کو لاعلمی، غلط فہمی یا کمزوریِ فکر کے باعث نقصان پہنچ رہا ہو، وہاں علمائے کرام کو بصیرت اور حکمت کے ساتھ رہنمائی فراہم کرنی چاہیے۔
یہی علم کی امانت اور علماء کی حقیقی وراثت ہے کہ وہ امت کو گمراہی کے اندھیروں میں روشنی دکھائیں، نہ کہ کسی دباؤ یا مصلحت کے تحت خاموشی اختیار کریں۔
ہمارے معاشرے میں اس وقت چند ایسے عناصر بھی سرگرم ہیں جو “دین” یا “علم” کے لبادے میں رہ کر دانستہ یا نادانستہ طور پر نہ صرف اسلام کی وحدت بلکہ ملک کی سلامتی اور فکری ہم آہنگی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
ایسے حالات میں ضروری ہے کہ عوام کو واضح طور پر آگاہ کیا جائے کہ دین میں علم اور قیادت کا مقام کس کے لیے ہے، اور حقیقی علماء کی پہچان کیا ہے۔
یہ بھی عوام کو سمجھایا جائے کہ ہر وہ شخص جو علم کی بات کرے، وہ ضروری نہیں کہ “عالمِ حق” ہو۔
عوام کو یہ سمجھنا چاہیے کہ علماء کی تین بنیادی اقسام ہیں۔ عالمِ حق، عالمِ وقت اور عالمِ سُوء تاکہ وہ صحیح علماء کی شناخت کر سکیں اور انہی کے پیچھے چلیں۔
جب امت سچے علماء سے جڑتی ہے تو فتنوں کے دروازے بند ہو جاتے ہیں، اور جب گمراہ عناصر کی باتوں میں آتی ہے تو فتنہ بڑھتا ہے۔
🌿 علماء کی اقسام، ان کی پہچان اور ان کا مقام
اسلام میں علماء کو انتہائی بلند درجہ حاصل ہے۔
قرآن و حدیث نے علم و اہلِ علم کی عظمت بیان کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہی لوگ اللہ سے حقیقی خوف رکھتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
> “إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ”
(سورۃ فاطر: 28)
“اللہ سے تو صرف اس کے بندوں میں سے علم والے ہی ڈرتے ہیں۔”
تاہم، ہر عالم ایک جیسا نہیں ہوتا۔
ان کی نیت، کردار اور طرزِ عمل کے لحاظ سے علماء کی تین بنیادی اقسام بیان کی جاتی ہیں:
عالمِ دین (عالمِ حق)، عالمِ وقت (زمانہ شناس عالم)، اور عالمِ سُوء (برا یا گمراہ عالم)۔
🌺 ۱. عالمِ دین (عالمِ ربانی / عالمِ حق)
یہ وہ عالم ہے جو علم کو اللہ کی رضا کے لیے حاصل کرتا ہے، اس پر عمل کرتا ہے اور اخلاص کے ساتھ دوسروں تک پہنچاتا ہے۔
اس کے کردار میں تقویٰ، عاجزی، سچائی اور عدل نمایاں ہوتا ہے۔
وہ مخلوق کی رضا کے بجائے خالق کی رضا کو مقدم رکھتا ہے اور حق بات کہنے میں کسی خوف یا مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیتا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> “علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور انبیاء (وراثت میں) درہم و دینار نہیں چھوڑتے بلکہ ( اپنے پیچھے وراثت میں صرف) علم چھوڑتے ہیں۔”
(سنن ابوداؤد، حدیث 3641)
ایسے عالم کی زبان سے حق، عمل سے تقویٰ، اور تعلیم سے اصلاح ظاہر ہوتی ہے۔
یہی لوگ امت کے حقیقی رہنما اور وارثانِ نبوت ہیں۔
📘 امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
> “عالم وہ ہے جو حق پہ قائم رہے، خواہ زمانہ اس کے خلاف ہو؛
اور جو زمانے کے رنگ میں رنگ جائے، وہ عالم نہیں، دنیا دار ہے۔”
(احیاء علوم الدین)
🕰 ۲. عالمِ وقت (زمانہ شناس / اصلاحی عالم)
یہ وہ عالم ہوتا ہے جو قرآن و سنت کے گہرے فہم کے ساتھ عصرِ حاضر کے چیلنجز اور مسائل کو بھی سمجھتا ہے۔
وہ دین کو زمانے کی زبان میں پیش کرتا ہے تاکہ نئی نسل دین سے دور نہ ہو۔
ایسا عالم شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے دین کو قابلِ فہم اور قابلِ عمل بناتا ہے۔
یہ عالم نہ صرف مذہبی معاملات میں بلکہ فکری، سماجی اور اخلاقی اصلاح میں بھی رہنمائی کرتا ہے۔
قرآن میں دعا ہے:
> “وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا”
(سورۃ الفرقان: 74)
“اور ہمیں پرہیزگاروں کے لیے پیشوا بنا۔”
یہ دعا دراصل ایک “عالمِ وقت” کی صفت ہے کہ وہ زمانے کی قیادت دین کے اصولوں کے مطابق کرے۔
📘 امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
> “جو اپنے زمانے کو سمجھے، نفس کی خواہشات کو پہچانے اور شریعت کی حقیقت پر قائم رہے، وہی ربانی عالم ہے۔”
(اعلام الموقعین، جلد ۴)
⚖️ عالمِ حق اور عالمِ وقت — ان میں سے کون بہتر ہے؟
دونوں اپنی جگہ قیمتی ہیں، مگر اصل معیار “شریعت کی پابندی” ہے۔
اگر عالمِ وقت شریعت کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے دین کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق پیش کرے تو وہ عالمِ حق ہی کی ایک متحرک شکل ہے۔
لیکن اگر وہ زمانے کی خوشنودی کے لیے دین میں نرمی یا تاویل کرے تو وہ “عالمِ حق” کے مقام سے گر جاتا ہے۔
اس لیے عالمِ حق اصل بنیاد ہے، اور عالمِ وقت اس کی وسعت یافتہ صورت، بشرطِ اخلاص و تقویٰ۔
🔥 ۳. عالمِ سُوء (گمراہ عالم)
یہ وہ عالم ہے جو علم کو دنیاوی مفاد، شہرت یا اقتدار کے لیے استعمال کرتا ہے۔
وہ حق جان کر بھی خاموش رہتا ہے، باطل کی حمایت کرتا ہے یا حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے مصلحت اختیار کرتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> “سب سے زیادہ عذاب قیامت کے دن اس عالم کو ہوگا جس کے علم سے فائدہ نہ اٹھایا گیا۔”
(بیہقی، شعب الایمان)
📘 امام غزالی رحمہ اللہ نے ایسے علماء کو “علمائے سوء” کہا اور فرمایا:
> “یہ وہ لوگ ہیں جو علم کو دنیا کا زینہ بناتے ہیں،
ان کی زبان پر حق ہے مگر دل دنیا کی محبت میں اسیر ہے۔”
(احیاء علوم الدین)
📘 امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے فرمایا:
> “شیطان کا سب سے بڑا فریب یہ ہے کہ وہ علماء کو حکام کے قریب کر دیتا ہے،
یہاں تک کہ وہ حق چھپانے لگتے ہیں اور مصلحت کے نام پر دین کو بدل دیتے ہیں۔”
(صيد الخاطر)
اسلام علم کو نہیں بلکہ اخلاص، عمل اور حق پسندی کو معیار بناتا ہے۔
ہر وہ عالم جو قرآن و سنت کا علم رکھتا ہے، اس پر عمل کرتا ہے، اور امت کو حق کی راہ دکھاتا ہے ، وہ عالمِ حق ہے۔
اور جو اپنے زمانے کے فتنوں کو سمجھ کر دین کو محفوظ رکھتا ہے، وہ عالمِ وقت کہلاتا ہے۔
جبکہ جو علم کو تجارت، سیاست یا دنیاوی مفاد کا ذریعہ بنا لے، وہ عالمِ سوء ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہم علم کے ساتھ ساتھ اخلاص اور تقویٰ کو بھی اپنائیں،
کیونکہ علم بغیر عمل کے نُور نہیں بلکہ بوجھ بن جاتا ہے۔
صادق نذیر اسلامک لائیبریری
