ناک اونچی ہونی چاہیے یا ایمان

اداریہ
ناک اونچی ہونی چاہیے یا ایمان
بھارت‘ اسرائیل اور امریکہ‘ اور ان جیسے دیگر ملک‘ کیوں ہر روز انصاف پسند معاشروں کی تنقید کا نشانہ بنے رہتے ہیں‘ اس لیے یہ وعدے نہ نبھانے‘ عہد کی پاس داری نہ کرے اور طاقت کے زعم میں اپنی ناک اونچی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں‘ دھونس جماتے ہیں‘ انسانوں کی زندگی میں اور اقوام کی زندگیوں میں‘ عالمی معاشروں میں جہاں‘ تہذیب‘ تمدن کی بنیادوں پر زندگی چل رہی ہو وہاں ان وعدوں کی پاس داری‘ عہد نبھانے کی کی بڑی اہمیت ہے‘ اور یہی انسانوں کی اور تہذیب یافتہ معاشروں کی پہچان ہے‘ یہی صفت ہر انسان کو دوسرے انسانوں سے الگ اور ممتاز بناتی ہے اہل ایمان کے پاس کیا ہے ایک عہد کی پاس داری کی صفت ہی ہے اور ہے کیا؟ صلح حدیبیہ کیا ہے؟ اہل مدینہ اور اہل مکہ کے مابین ایک معاہدہ طے ہوا‘ معاہدہ کی ایک شق یہ تھی کہ اگر مدینہ سے کوئی مکہ آنا چاہے تو اہل مدینہ کی جانب سے اسے نہیں روکا جائے گا‘ اور اگر مکہ سے کوئی مدینہ جانا چاہے تو اہل مکہ اسے روک سکتے ہیں‘ بظاہر تو غیر متوازن معاہدہ معلوم ہوتا ہے‘ مگر انسانیت کے یا قیامت قائد‘ رہبر‘ راہنماء اور اعلی ترین ہستی‘ ایسی ہستی کہ تا قیامت ایسی ہستی دوبارہ نہیں آسکتی‘ نبی آخرالزمانﷺ‘ معاہدے کے لیے زبان دے چکے ہیں اور معاہدہ ابھی تحریر ہونا کہ اچانک مکہ سے ابو جندل آگئے‘ اس وقت کے ماحول کا نقشہ کیا ہے؟ اہل مکہ کے بدترین تشدد سے نہائت لاغر‘ زخموں سے چور چور ابو جندل رضی اللہ تعالی عنہا‘ ان پر تشدد اس لیے کہ توہ ایمان لاچکے ہیں‘ اسلام قبول کرچکے ہیں‘ اور درخواست کرتے ہیں کہ انہیں اپنے ساتھ مدینہ لے جائیں‘ اتنی رقت آمیز درخواست کہ ہر مسلمان اندر سے ٹوٹ گیا‘ مگر فیصلہ کیا ہوا؟ فیصلہ یہی ہوا کہ ابو جندل واپس لے جاؤ‘ کہ ہم معاہدہ کرچکے ہیں زبان دے چکے ہیں‘ اس وقت پوری مسلم برادری‘ اہل مدینہ کا کیا حال ہوگا؟ کوئی تصور کر سکتا ہے نہیں کر سکتا جناب!
لیکن زبان دی جاچکی تھی اور اس کی پاس داری کرنی تھی کہ اسی صفت نے اہل اسلام اور اہل کفر میں فرق کرنا تھا‘ اسلام میں زبان کی بڑی اہمیت ہے‘ ہوسکتا ہے کہ اسلام آباد میں زبان کی کوئی اہمیت نہ ہو مگر ہم تو مسلمان ہیں‘ صلح حدیبیہ کی لاج رکھنے کے پابند اور وارث ہیں‘
کیا ہمیں یہ بات معلوم نہیں کہ بھارت نے وعدہ کیا تھا کہ اہل اکشمیر کو رائے شماری کا حق دے گا‘ آج سات دہائیوں سے ہم پاکستان کے ہر شہر‘ چوک چوراہوں میں سیاسی جماعتوں‘ دینی جماعتوں‘ کاروباری تنظیموں‘ تاجر فورمز غرض پارلیمنٹ سے لے عام چوراہوں تک بھارت کو لعن طعن کرتے ہیں کہ اس نے وعدہ نہیں نبھایا‘ جو زبان دی تھی اس کی پاس داری نہیں کی‘ لیکن ہم خود بھی دیکھیں کہ کیا ہم میں سے کوئی ایسا تو نہیں ہے جو بھارت‘ امریکا اور اسرائیل کی مانند دھونس جمارہا ہو اور اپنے وعدے کی پاس داری نہ کررہا ہو؟ آئیے تھوڑا ساوقت نکالیے اور اپنے آس پاس دیکھیں کہ کون ہے؟ اگر کوئی بھی ایسا نہیں ہے تو پھر ہم بطور قوم کامیاب ہیں اگر کوئی ایسا مل جائے جو وعدے کی پاسداری نہیں کرتا‘ زبان دے کر مکر جائے‘ کہ اپنی ناک اونچی رکھنی ہے تو پھر ہمیں ضرور سوچنا ہے اپنے بارے میں اور اس کے بارے میں‘ ہم کہاں کھڑے ہیں؟
ایسے شخص کو کشمیریوں کے لیے آواز اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں ایک بار ضرور جھانک لینا چاہیے‘ آج کی تحریر اگر آج ہمارے معاشرے کی تصویر بھی ہے تو پھر ہمیں ضرور اپنا محاسبہ کرنا ہوگا
ابھی آج کی بات کرلیتے ہیں‘ پاک افغان سرحد پر کشیدگی ہے‘ طالبان عبوری حکومت وعدوں کے باوجود بندوق برداروں کو نہیں روک رہی‘ کئی بار اس کے کہا کہ ہم اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے‘ کیا انہوں نے پاس دا ری کی‘ جو زبان دی تھی پاکستان کو
پھر تنائج کیا ہیں؟ کچھ نتائج تو سامنے آچکے ہیں اور باقی نتائج کے لیے انتظار کیجئے‘ یہ سبق ہے ہمارے لیے‘ اور ان تمام لوگوں کے لیے جنہوں نے جرگوں میں حلف اٹھائے ہیں‘ ان کے حلف کہاں ہیں؟ اگر وہ اپنے حلف کی پاس داری کر رہے ہیں تو نہائت قابل عزت لوگ ہیں‘ ان کی تکریم کی جانی چاہیے لیکن اگر وہ زبان کی پاس داری نہیں کر رہے تو پھر ان کا علاج ضروری ہے جو ہورہا ہے جس کا علاج نہیں ہوا اس کا بھی ہونا چاہیے کہ عقل مندوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہے