سوشل میڈیا اور دجالی فتنوں کا زمانہ
تحریر: انجنیئر افتخار چودھری
دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، لیکن انسان کے اندر کا خلا اس سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں انسانوں کو قریب سے دیکھا، ان کے چہروں کے پیچھے چھپے سچ اور جھوٹ کو پرکھا، ان کے لہجوں کی مٹھاس اور زہر دونوں کا مزہ چکھا۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ احسان کا بدلہ احسان سے دیتے تھے، محبت کا جواب محبت سے، اور نیکی کا پھل نیکی ہی ہوتا تھا۔ مگر آج لگتا ہے جیسے معاشرہ کسی اندھے کنویں میں گر گیا ہے، جہاں سے آواز تو آتی ہے، مگر معنی نہیں آتے۔ آج انسان کی سب سے بڑی کمزوری اس کی ناشکری ہے—اور یہی اس کا سب سے بڑا زوال بھی۔ آج صبح ایک خبر پھیلی کہ نورین نامی لڑکی آزاد پتن آتے ہوئے دریا میں ڈوب گئی ہے۔ ساتھ ایک معصوم سی بچی کی تصویر لگا دی گئی۔ چند منٹوں میں ہزاروں لوگوں نے اسے شیئر کر دیا۔ قوم کے دل پر اچانک افسردگی چھا گئی۔ مجھے بھی لگا جیسے کشمیر کی ایک بیٹی دنیا سے رخصت ہو گئی ہے۔ لیکن کچھ دیر بعد پتا چلا کہ یہ خبر جھوٹی تھی۔ نہ کوئی ڈوبی، نہ کوئی مرا۔ وہ بچی تو راولپنڈی آرہی تھی اپنا ویزا پروٹیکٹ کرانے۔ نہ کوئی سانحہ، نہ کوئی حادثہ، بس ایک جھوٹا شور۔
اصل مسئلہ خبر غلط ہونا نہیں—اصل مسئلہ معاشرہ غلط ہو جانا ہے۔ انسان اب یہ تک نہیں سوچتا کہ ایک جھوٹی اطلاع کسی گھر میں قیامت برپا کر سکتی ہے۔ مجھے مولانا مودودیؒ کا وہ جملہ یاد آیا: “معاشرہ اس دن تباہ ہو جاتا ہے جب سچ بولنا مشکل اور جھوٹ بولنا آسان ہو جائے۔” ہم اسی دہانے پر کھڑے ہیں۔ سچ پھیلانے میں لوگ کنجوسی کرتے ہیں، مگر جھوٹ کو اتنا پھیلاتے ہیں جیسے خیرات بانٹ رہے ہوں۔ آج انسان کی انگلیاں اس کی زبان سے زیادہ تیز ہیں۔ ایک کلک میں الزام لگا دو، کسی کو مروا دو، کسی گھر میں ماتم بٹھا دو، یا کسی کی عزت خاک میں ملا دو۔ نہ سوچ، نہ تحقیق، نہ ذمہ داری۔ یہی وہ وقت ہے جب رومیؒ کی یہ بات انسان کے دل پر دستک دیتی ہے: “زخم وہ نہیں تکلیف دیتا جو دشمن دے، زخم تو وہ جلا دیتا ہے جو دوست کی طرف سے آئے۔” اور آج کل کے ’’ورچوئل دوست‘‘ اتنے زخم دیتے ہیں کہ شاید دشمن بھی نہ دے۔ انسان نے انسانیت کو شاید اتنی آسانی سے کبھی نہ کھویا ہوگا جتنی تیزی سے اس نے پچھلے چند برسوں میں کھو دی ہے۔ پہلے لوگ ایک دوسرے کے دکھ میں شریک ہوتے تھے۔ آج لوگ دوسروں کے دکھ سے تفریح لیتے ہیں۔ کوئی خبر آئے تو سب سے پہلے شیئر، بعد میں سوچ۔ کوئی حادثہ ہو تو سب سے پہلے ویڈیو، بعد میں مدد۔ کسی کی شہادت ہو تو سب سے پہلے “ریٹنگ”، بعد میں دعا۔ میاں محمد بخشؒ نے اسی سچ کو ایک مصرع میں بند کیا تھا: “لوکاں دے وچ درد نہ رَہیا، ہر کوئی بنیا حکیم اے” یہ حکیم نہیں، معاشرتی بیماری ہے۔
نورین کی جھوٹی خبر نے مجھے اندر تک ہلا دیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ ہم اپنی نسلوں کو ایک بے رحم، بے درد معاشرہ دے رہے ہیں جہاں سانحے مصروفیت بن چکے ہیں اور دکھ تفریح کا سامان۔ انسان کے دل کا نرم گوشہ جیسے سوکھتا جا رہا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں داخل ہو رہے ہیں جہاں آنسو بھی کنٹینٹ ہیں اور جنازے بھی خبروں کی “ریٹنگ”۔ میں نے اپنی زندگی میں احسان کرنے والوں کو بھی ٹوٹتے دیکھا ہے اور احسان کھانے والوں کو بھی بدلتے دیکھا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ تھوڑی سی مدد پر بھی مر مٹتے تھے۔ آج لوگ بڑے سے بڑا احسان بھی یوں بھول جاتے ہیں جیسے کبھی ہوا ہی نہ ہو۔ ناشکری صرف زبان کی برائی نہیں—یہ دل کی بیماری ہے۔ اور جس دل میں ناشکری گھر کر لے، اس میں احترام، وفا، محبت اور انسانیت کسی بھی چیز کے لیے جگہ نہیں رہتی۔ میں نے اپنی زندگی میں دولت کا نمک، غربت کی تلخی، جلاوطنی کا درد، اور بے وفائی کی چبھن سب دیکھی۔ مگر جتنا دُکھ ناشکری دیتی ہے، اتنا شاید دنیا کا کوئی زخم نہیں دیتا۔ انسان جب کسی کی مشکل وقت میں مدد کرے اور وہی شخص پلٹ کر پتھر مارے، تو دل پر جو زخم بنتا ہے وہ کسی مرہم سے نہیں بھرتا۔ یہی وہ لمحہ ہے جب انسان کی روح چپکے سے رومیؒ کی اس نصیحت کو دہراتی ہے: “لوگوں سے امیدیں کم رکھو، کیونکہ امیدیں بڑھ جائیں تو دل ٹوٹتے دیر نہیں لگتی۔”
میری نظر میں آج ایک اور فتنہ کھڑا ہو گیا ہے—مصنوعی ذہانت یعنی AI۔ یہ صرف ایک ٹیکنالوجی نہیں، بلکہ ایک دجالی فتنہ بن کر معاشرے پر چھا رہا ہے۔ یہ مشین انسانی عقل کو دھوکہ دیتی ہے، فیصلوں کو بدل دیتی ہے، اور حقیقت کو مٹانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لوگ سچ اور جھوٹ کی پہچان چھوڑ کر، مشین کے بتائے کو آخری سند سمجھ بیٹھتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں جھوٹ پہلے ہی بجلی کی رفتار سے پھیل رہا ہے، اور اب اگر اس میں مشینی قوت بھی شامل ہو گئی تو نسلیں کس بھنور میں پھنسیں گی؟ مجھے خدشہ ہے کہ یہ فتنہ انسانیت کے سب سے بنیادی رشتوں کو بھی متاثر کرے گا، اور نوجوان نسل کی سوچ پر سایہ ڈالے گا۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: “جھوٹ دیاں ہوندیاں ٹہنیاں، پر سچ دیاں جڑاں ڈھیکاں” جھوٹ کی ٹہنیاں تو ہر طرف پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں مگر سچ کی جڑیں مٹتی نہیں، چاہے کتنی بھی مٹی ڈال دی جائے۔ اسی طرح AI کے دجالی فتنوں میں بھی انسان کی سوچ اور اخلاق کی جڑیں کمزور پڑ سکتی ہیں، اگر ہم ہوشیار نہ ہوئے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم اپنی نسلوں کو کس سمت لے جا رہے ہیں؟ یہ کیسی دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں جہاں انسانیت سے زیادہ وائرل ہونا اہم ہے؟ جہاں شہرت سچائی پر بھاری ہے؟ جہاں دکھ تماشہ ہے اور جھوٹ حقیقت؟ میرا پیغام یہی ہے کہ: خبر شیئر کرنے سے پہلے تحقیق ضرور کریں۔ کسی کے بارے میں پوسٹ لگانے سے پہلے اس کے نتائج سوچیں۔ اپنی زبان میں رحم اور عمل میں سچائی رکھیں۔ احسان کو بوجھ نہیں، انسانیت سمجھیں۔ یہ دنیا ابھی مکمل بے درد نہیں ہوئی۔ کچھ دل ابھی دھڑکتے ہیں، کچھ روحیں ابھی بھیگی آنکھوں سے سوچتی ہیں، کچھ لوگ ابھی انسانیت کی آخری شمعیں اٹھائے کھڑے ہیں۔ لیکن یہ شمعیں بہت کمزور ہیں—انہیں بجھنے نہ دیں۔ اگر ہم نے اپنے اخلاق نہ بدلے تو آنے والی نسلیں شاید کتابوں میں پڑھیں گی کہ ’’ایک دور تھا جب لوگ ایک دوسرے کی تکلیف محسوس کرتے تھے۔‘‘ زندگی کی اصل خوبصورتی شکر، سچ، محبت اور رحم میں ہے۔ جو دل ان چاروں کو تھام لے، وہ کبھی برباد نہیں ہوتا۔ آخر میں میں خاص طور پر صاحبزادہ ذوالفقار داس کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جنہوں نے مجھے اگاہ کیا کہ یہ خبر فیک تھی اور یہ کہ چودری صاحب، یہ جھوٹی خبر پھیل رہی ہے۔ ان کی بروقت اطلاع نے مجھے اور میری تحریر کو سچائی کی راہ پر قائم رکھا۔ یہ کالم آج کے سوشل میڈیا کے بے لگام دور، معاشرتی ناشکری، انسانی درد، اور دجالی فتنے یعنی AI کے اثرات کے حوالے سے ایک انتباہ ہے کہ ہم سب کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر، سوچ کر، اور دل میں رحم رکھتے ہوئے قدم بڑھانا ہوگا تاکہ معاشرہ دوبارہ انسانیت کی روشنی سے منور ہو سکے۔
میں صاحبزادہ ذوالفقار تاس کا شکر گزار ہوں جنہوں نے میری تصحیح کی
