[ فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے چیئرمین مسرت اعجاز خان سے انٹرویو



مسرت اعجاز خان‘ مزدور بھی ہیں اور محنت کش بھی‘ پیدل چل کر روزگار تلاش کیا‘ طیب رزق اور علم نافع کے قائل ہیں ان کی کہانی والد کے انتقال اور والدہ کی بیماری کے علاج کے لیے روزگار کی تلاش سے شروع ہوتی ہے‘ کہتے ہیں کہ آج اگر کوئی مجھ سے پوچھتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ میرے پاس نواز شریف اور آصف زرداری سے بھی ذیادہ پیسہ ہے‘ روزگار کی تلاش میں وہ کراچی اور اسلام آباد میں سرگرداں رہے‘ زمانہ طالب علمی میں بھٹو کی پیپلزپارٹی کے جیالے تھے‘ پی ایس ایف کے سرگرم کارکن رہے ہیں‘ متعدد بار جیل بھی جاچکے ہیں‘ بھٹو حکومت کی برطرفی پر بھی جیل گئے‘ یہی جیل یاترا انہیں پیپلزپارٹی سے دور لے گئی جیل سے واپس آئے تو پہلا کام یہی کیا کہ پیپلزپارٹی کو خیر باد کہہ دیا‘ کہ جس جماعت کے لیے جیل کاٹی اس کا کوئی رہنماء میرے گھر کی خبر گیری اور میری بیمار والدہ کی تیمارداری ہی نہیں کر سکا‘ بھٹو کی رہائی کے لیے مارشل لاء کے خلاف تحریک کے لیے منصوبہ بندی اجلاس میں ہی غلام مصطفی جتوئی کو صاف صاف بتادیا کہ اس جماعت کے ساتھ نہیں چل سکتا جس کے لیے جیل کاٹو اور پارٹی رہنماء حال تک نہ پوچھیں‘ سیاست سے ان کا اب دور دور تک تعلق نہیں ہے مگرسیاست دانوں میں سراج الحق ان کے پسندیدہ سیاست دان ہیں‘ کہتے ہیں کہ اگر کسی سیاست دان کے ساتھ تصویر کھنچوانے کا شوق دل میں پیدا ہوا تو وہ سراج الحق ہی ہیں اس بات کا اظہار انہوں نے پاکستان بزنس فورم کے زیر اہتمام پانچ فروری کو کشمیر فورم میں بھی کیا تھا‘ چالیس سال سے رئیل اسٹیٹ پراپرٹی کے بزنس سے وابستہ ہیں‘ پورے ملک میں اس حلقے میں ان کی خوب پہچان ہے‘ کراچی میں ڈیفکلیریا کی بنیاد ڈالی تھی‘ یہ تنظیم آج بہت بڑی نمائندہ تنظیم بن چکی ہے حکومت نے حال ہی میں تعمیراتی انڈسٹری کے لیے ایک پیکج دیاہے اس بارے میں ان کا نکتہ نظر یہ ہے کہ یہ مزدور کا نہیں بلکہ بلڈرز کا پیکج ہے عام آدمی تک فائدہ پہنچانے کے لیے یہ کام گراس روٹ لیول پر ہوناچاہیے ورنہ کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ تعمیراتی شعبے کی فلاح کے لیے وہ حکومت کے اداروں اور خصوصاً اس شعبے کے لیے ذمہ دار جنرل انور حیدر علی سے بھی ملاقات میں گزارشات کر چکے ہیں انہیں تجاویز دی تھیں اب چونکہ فیصلہ ہو چکا ہے لہذا اس پر اتنا ہی کہتے ہیں وہ بلڈرز کے پیکج کو زندہ باد نہیں کہہ سکتے‘ حکومت اگر چند افراد کو نواز رہی ہے یا صرف ان کی فلاح ہی اسے مقصود ہے تو پھر یہ الگ بات ہے‘ حکومت کے تعمیراتی پیکج‘ اور اسی شعبے کے حوالے سے ان سے گفتگو کی گئی ہے جو قارئین کے پیش خدمت ہے
……………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………
س…… کچھ اپنے بارے میں بتائیے کہ آپ کا یہ سفر کن کن مراحل سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہے‘ ایک عام آدمی سے یہاں تک پہنچے ہیں‘ پیدل کام شروع کیا اور آج رئیل اسٹیٹ شعبے میں نام پیدا کیا ہے‘ آپ کی گفتگو یوم مزدور کے حوالے سے بھی ہے کہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ جیسے ایک مزدور نے کیسے زندگی کو ایک کامیاب سٹوری بنایا ہے
ج…… سب سے پہلے ملک میں کام کرنے والے ہر ایک مزدور کو سلام‘ کیونبکہ اپنی ہاتھ سے کمانے والے کو اللہ نے اپنادوست قرار دیا ہے‘ آج ہر وہ مزدور جو محنت اور دیانت داری سے کام کرتا ہے‘ وہ اللہ کا دوست ہے‘ جہاں تک میری اپنی بات ہے‘ چھ ماہ کی عمر تھی کہ میرے والد محترم دنیا سے رخصت ہوگئے‘ میری والدہ نے محنت‘ شفقت اور بہت ہی کٹھن حالات میں اپنی اولاد کو پالا پوسا ہے‘ میری والدہ نبی آخرزمانﷺ کے غلاموں کی غلام تھیں‘ اور میں انہیں دنیا کی عظیم ترین خاتون سمجھتا ہوں‘ آج جو کچھ بھی ہوں اپنی والدہ کی دعاؤں کی وجہ سے ہوں‘ ایک سال کی عمر میں میرا خاندان کراچی آیا تھا‘ یہ غالباً1966 کا سال تھا‘ ہم پٹیل پاڑا کے علاقے میں آکر ٹھرے تھے‘ کراچی میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی‘ لالوکھیت کے علاقے میں کنڈر گارڈن سکول تھا‘ اس کے کچھ ہی عرصے بعد ہم اسلام آباد چلے آئے یہاں سیکٹر جی سکس میں سرکاری پرائمری سکول میں داخلہ لیا‘ مجھے شروع دن سے ہی تقریریں کرنے اور مباحثوں میں حصہ لینے کا شوق تھا‘ تقریر بھی خوب کرلیتا تھا‘ پہلا انعام مجھے کشمیر کے حوالے سے ایک فنکشن میں پہلا انعام ملا‘ مجھے ابتداء ہی میں بہترین استادملے‘ جنہوں نے مجھے تقریری مقابلوں کے لیے خوب تیاری کرائی‘ میرے استاد محترم لطیف قریشی صاحب نے بہت شفقت کی‘ چھٹی سے آٹھویں تک میں اپنی کلاس میں سیکرٹری رہا‘ معروف شاعر اور وکیل مجتبی حیدر شیرازی میرے کلاس فیلو رہے ہیں وہ ہماری کلاس کے صدر بھی رہے‘ میٹرک میں چیف مانیٹر اور چیف پراکٹر رہا‘ میٹرک کے بعد انٹرمیڈیٹ کالج میں داخلہ لیا‘ اس وقت ملک میں بھٹو حکومت تھی‘ بھٹو کی شخصیت سے میں بھی متاثر تھا اسی لیے کالج میں پی ایس ایف جائن کی‘ بھٹوکی شخصیت سے ایک طالب علم کے طور پر عشق کی حد تک متاثر تھا‘ ہمارے گھر کے معاشی حالات بہت اچھے نہیں تھے‘ بہت ہی مشکل سی میٹرک کیا‘ میٹرک کے بعد کالج میں گیا‘ تو گھر میں معاش کی فکر اور بڑھ گئی تھی لہذا مجھے تعلیم کا سفر ادھوراچھوڑ کر خاندان کی گزر اوقات کے لیے مزدوری تک کرنا پڑی‘ جب یہ فیصلہ کیا تو اتفاق سے میرے ایک عزیز نے یہاں پراپرٹی خریدی تو میں اس پورے عمل میں شریک رہا‘ جس سے مجھے کچھ رقم بطور کمشن ملی‘ یہ میری پہلی کمائی تھی اس کے بعد ہم تین دوستوں‘ شاہد خان اور تنویر ایوب نے اس کام میں مذید دلچسپی لی اور رئیل اسٹیٹ کے کام کو ہی بطور روزگار چن لیا ان دنوں ملک میں تعمیراتی کاموں کے لیے سیمنٹ کا ملنا بہت مشکل ہوا کرتا تھا‘ اور ہم نے اپنا دفتر ہی ایک ایسی جگہ بنایا جس کے نذدیک سیمنٹ ایجنسی تھی‘ یوں ایک چھوٹے سے دفترسے کام شروع کیا تھا‘ حالات یہ تھے کہ جیب میں دفتر کا کرایہ نہیں تھا‘ گھر سے ہی میز کرسی لاکر دفتر میں رکھی‘ میز کی تو ایک ٹانگ ہی نہیں تھی لہذا نیچے اینٹیں رکھ کر میز بیلنس کیا‘محنت کرتے رہے‘ کچھ عرصہ کے بعد پہلی بڑی ڈیل ہوئی‘ کمشن کی باہمی تقسیم کے بعد میرے ہاتھ میں پانچ سو روپے آئے تو گھر جاکر اپنی والدہ کے ہاتھ پر رکھ دیے‘انہوں نے تفتیش ہی شروع کردی کہ بتاؤ یہ پیسے کہاں سے آئے؟ کیونکہ گھر کی کل ماہانہ آمدنی تو چار سو روپے تھی‘ یہ پانچ سو کہاں سے آگئے؟ جب میں نے انہیں ساری تفصیل بتائی تو مطمئن ہوگئیں‘ اس کے بعد مسلسل توجہ سے کام کرتا رہا‘ اور اپنے کالج فیلوز سے بھی بہت مدد لی‘ سابق آئی جی سندھ کلیم امام میرے جونیئر اور کالج فیلو ہیں‘ وقت کچھ آگے بڑھا تو اسی روزگار کے ذریعے میں نے پہلی گاڑی خریدی‘ اور موٹر سائکل بھی‘ کالج میں چونکہ بہت متحرک تھا اورا سی دوران بھٹو حکومت ختم ہوئی اور ملک میں مارشل لاء نافذ ہوگیا‘ جنرل ضیاء الحق آگئے‘ بھٹو حکومت کی برطرفی پر دل بہت رنجیدہ ہوا‘ میں پی ایس ایف کا کارکن تھا اور میرے بھائی ریاض خان این ایس ایف کے مرکزی صدر تھے‘ میں نے پارٹی قیادت سے کہا تھا کہ میں طالب علموں کی قوت اکٹھی کرکے بھٹو کو جیل سے باہر نکال سکتا ہوں‘ بہر حال بھٹو کی گرفتاری کے بعد پی ایس ایف نے احتجاج کیا‘ اور طلبہ کو منظم کرنا شروع کیا‘ لیاقت باغ میں بہت بڑا جلسہ کیا‘ اس جلسے کے بعد پولیس نے گرفتار کرلیا‘ پولیس مجھے پہلے مندرہ لے گئی‘ پھر جاتلی اور اس کے بعد چونترہ ریسٹ ہاؤس لے گئی‘ کچھ عرصے کے بعد میری رہائی ہائی کورٹ کے حکم پر ہوئی‘ جب رہا ہو کر گھر آیا‘ تومیرا خیال تھا کہ پارٹی کا سرگرم کارکن ہونے کی وجہ سے میری گرفتاری پر پارٹی کے رہناؤں نے میری عدم موجودگی میں میرے گھر کی خبر گیری کی ہوگی لیکن پارئی کا کوئی رہنماء میرے گھر نہیں آیا‘ جس کا بہت رنج ہوا‘ جب رہا ہو کر آیا تو اسی روز جتوئی ہاؤس سے پیغام آیا کہ پارٹی کی میٹنگ ہے اس میں شریک ہوں‘ میں پارٹی میٹنگ میں گیا اور سب کی بات سننے کے بعد کہا کہ آج کے بعد میرا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ کیونکہ آپ میں سے کوئی بھی میرے گھر کی خبر گیری کے لیے نہیں آیا‘ جس پارٹی کے لیے جیل کاٹی اس کا سلوک ناقابل برداشت تھا
س…… جتوئی ہاؤس میں پارٹی اجلاس میں کون کون شریک ہوتے تھے
ج…… مصطفی کھر‘ غلام مصطفی جتوئی سمیت بہت سے اہم رہنماء شریک ہوا کرتے تھے
س……ان میں سے کوئی بھی خبر گیری نہیں کرسکا
ج…… نہیں‘ ان میں سے کوئی نہیں آیا‘ میں نے دلبرداشتہ ہو کر سیاست چھوڑ دی اور ساری توجہ اپنے روزگار اور والدہ کے علاج پر پر مبذول کرلی‘ جیل جانے سے میرا جو چھوٹا موٹا روزگار شروع ہوا تھا وہ سب تباہ ہوگیا‘ بلکہ نقصان بہت ہوا‘ اس زمانے میں چار کروڑ روپے تک نقصان ہوا
س…… اتنا بڑا نقصان اس زمانے میں کیسے ہوا
ج…… میں نے دو اوپن فائلیں لی تھی‘ اور ان کی بیعانہ کی رقم دی تھی اور اسے ایک بنگالی کے حوالے کیا لیکن وہ پاکستان چھوڑ کر بنگلہ دیش چلا گیا اور پیسہ بھی لے گیا‘ یوں میں بنک کرپٹ ہوگیا‘ مقروض بھی ہوا‘
س…… گویا ایک بار پھر زیرو ہوگئے
ج……جی پھر سے زیرو‘ اور روزگار کے لیے کراچی کا رخ کیا‘ یہاں اس وقت ڈی ایچ اے کا کام شروع ہوا تھا‘ یہاں ایک آرمی آفیسر کے ذریعے کاروبار میں پھر بہتری آنا شروع ہوئی اور یوں روزگار میں نئی اٹھان ملی‘ اسی دوران ایک بزنس ڈیل میں میری ملاقات گورنر فضل حق سے ہوئی‘ ان سے ملاقات اصل میں کمشن کی رقم کے لیے ہوئی تھی یہ رقم دس ہزار روپے تھی‘ مجھے کہنے لگے کہ کچھ پڑھے لکھے بھی ہو‘ انہیں بتایا کہ بی اے کیا ہے کہنے لگے کہ کمشن کی رقم چھوڑو‘ فاٹا میں آپ کو پولیٹیکل ایجنٹ لگا دیتے ہیں جس کی تنخواہ چار ہزار روپے ہوگی‘ میں نے انکار کردیا کہ دو ہفتے کی محنت کے بعد دس ہزار روپے کمشن مل رہا ہے مہینے بعد کہیں جاکرچار ہزار روپے ملیں گے‘ کہنے لگے بہت روشن مستقبل ہوگا مگر میں نے انکار کردیا‘ مجھے سمجھاتے رہے کہ پڑھے لکھے ہو‘ صوبے کے چیف سیکرٹری بن جاؤ گے‘ مگر میں نے انکار کردیا
س……بھٹو کے آپ شیدائی رہے ہیں‘ پی ایس ایف میں گئے‘ جیل کاٹی اور پھر آپ ضیاء الحق کے ساتھیوں سے مل گئے‘ آرمی آفیسرز کے ذریعے روزگار کماتے رہے
ج…… نہیں ایسا نہیں ہے‘ جب میں نے روزگار کے لیے آرمی آفیسر سے ملنا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ فوجی اچھے لوگ ہیں‘ دیانت دار ہیں‘ محب وطن ہیں‘ کمٹڈ لوگ ہیں‘ جنرل ضیاء الحق سے بھی اس وقت ایک ملاقات ہوئی اس ملاقات میں انہیں بہت ہی عاجز انسان پایا تھا‘ پیپلزپارٹی کے لوگ بہت بزدل تھے‘ اور خود غرض بھی تھے اس لیے بھٹو پھانسی قتل کے مقدمے میں پاگئے‘ بھٹو کی پھانسی پر میرے اندر بہت اشتعال تھا لیکن یہ اشتعال فوجی آفیسرز کے ساتھ جب انٹر ایکشن ہوا اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو آہستہ آہستہ میرے اندر کا اشتعال بھی کم ہوتا چلا گیا اور پھر ختم ہی ہوگیا ان کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ یہ لوگ بہتر ہیں‘ اس زمانے میں فوجی صرف فوجی تھا‘ بزنس مین نہیں تھا انہیں بزنس کا کوئی پتہ ہی نہیں تھا‘ میرا تو ان کے ساتھ تعلق ڈی ایچ اے کی وجہ سے بنا تھا کہ انہیں پلاٹ لے کر دینا‘ یا ان کا پلاٹ بیچنا‘س…… آپ کی سٹوری بتا رہی ہے کہ محنت‘ مستقل مزاجی‘ اور اپنے کام سے وفاداری دکھائی جائے تو محنت کا پھل مل جاتاہے
ج…… جی باالکل ایسا ہی ہے
س…… کراچی سے اسلام آباد‘ پھر بار بار یہاں آنا جانا‘ کیا فرق پایا
ج…… کراچی میں کوئی کسی کا دوست نہیں ہے‘ بس کاروباری مفاد ہے جو ایک دوسرے سے جوڑے رکھتا ہے‘ معیار صرف گاڑی گھر اور پیسہ ہے
س…… یہ بتائیے کہ محنت جیسی آپ نے کی‘ اس پروفیشن میں اس جیسی محنت اب بھی کہیں نظر آتی ہے‘ محنت‘ مستقل مزاجی‘ اور اپنے کام سے وفاداری ملتی ہے
ج…… نہیں‘ نہیں‘ اب محنت اور دیانت کی بجائے بد دیانتی بڑھ گئی ہے‘اکثریت چاہتی ہے کہ بس پیسہ کماؤ‘ جیسے بھی کماؤ‘ اب تو حالت یہ ہے کہ رئیل اسٹیٹ سے شروع ہونے والے اپنے نام کے ساتھ لفظ بلڈرز لگاتے ہیں اور فخر کرتے ہیں‘ اسی کو عزت کا معیار سمجھ لیا گیا ہے‘ رئیل اسٹیٹ کا روزگار میرے لیے اولاد کی طرح ہے‘ اسی میں عزت ہے‘ اس نے مجھے بہت عزت دی‘ اب تو کسی بھی رئیل اسٹیٹ ایسوسی ایشن کا الیکشن کروڑوں سے کم میں نہیں ہوتا‘ پیسہ ہی سب کچھ بن گیا ہے دیانت داری کی جگہ پیسے نے لے لی ہے
س…… رئیل اسٹیٹ کی کسی بھی تنظیم میں بلڈرز کیوں شامل ہیں
ج…… یہ بلڈرز اور انویسٹرز رئیل اسٹیٹ کے بزنس کو خراب کر رہے ہیں اور یہ رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کے حق کو بھی کھا رہے ہیں میں تو اس روزگار میں رہتے ہوئے سیاست سے کنارہ کش ہوچکا تھا لیکن2016 میں حالات نے ایک ایسا پلٹا کھایا کہ پھر اس میں کسی نہ کسی حد تک آنا پڑا
س…… اس پورے عمل میں آپ کا کنٹری بیوشن کیا ہے
ج…… کراچی میں ڈیفکلیریا میں نے بنائی‘ میرے ساتھ زکریا محنتی تھے‘ شاہد علیم تھے‘ راجا مظہر تھے‘ ہم نے یونٹی گروپ بنایا‘ میں آپ کو2016 کی بات بتاتا ہوں‘
س…… وہ بھی بات کریں گے یہ بھی بتائیے گا کہ حکومت نے جو اس وقت پیکج دیا ہے اس پر آپ کی رائے کیا ہے
ج…… یہ پیکج میری نظر میں اس شعبے کے مقاصد کو پورا نہیں کرتا‘ یہ بلڈرز کا پیکج ہے اسے میں زندہ باد نہیں کہہ سکتا‘جب تک گراس روٹ لیول تک عام آدمی کو فائدہ نہیں ملے گا اس پیکج کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ البتہ چند لوگ ہیں‘ جنہیں فائدہ مل جائے گا‘ حکومت نے اسے انڈسٹری کا درجہ دیا ہے‘ اتھارٹی بھی بن رہی ہے‘ لیکن میرا موقف ہے کہ چند افراد کے فائدے کی بجائے اس پیکج کو گراس روٹ لیول تک لے جایا جائے جس سے عام رئیلٹرز کو فائدہ ہوگا تو عام آدمی تک یہ فائدہ پہنچے گا میں بھی پتھروں پر چل کر ہی رئیل اسٹیٹ کی کہکشاں تک پہنچا ہوں‘ جانتا ہوں کہ یہ پیکج کیا ہے‘ پورا علم ہے یہ پیکج کیا ہے؟ یہ پیکج چند افراد کے لیے ہییہ کام گراس روٹ لیول پر ہوناچاہیے اس کے بغیر کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ تعمیراتی شعبے کی فلاح کے لیے وہ حکومت کے اداروں اور خصوصاً اس شعبے کے لیے ذمہ دار جنرل انور حیدر علی سے بھی ملاقات میں اپنی گزارشات کر چکا ہوں انہیں تجویز دی تھی اب چونکہ فیصلہ ہو گیا بہر حال میں بلڈرز کے پیکج کو زندہ باد نہیں کہہ سکتا‘ حکومت اگر چند افراد کو نواز رہی ہے یا صرف ان کی فلاح ہی اسے مقصود ہے تو پھر یہ الگ بات ہے بہر حال میں آپ سے دو ہزار سولہ کی بات کر رہاہوں اس وقت کچھ لوگ بڑی تعداد میں چیمبر کے دفتر جارہے تھے معلوم کیا کہ کیا ہوا؟ کسی نے بتایا کہ حکومت نے رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس لگایا ہے لہذا اس کے خلاف ردعمل میں اکٹھے ہورہے ہیں‘ میں بھی چلا گیا‘ وہاں بڑے ہال میں بہت سے لوگ جمع تھے‘ ان دنوں روئف عالم فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر تھے‘ میں نے وہاں ان لوگوں کی گفتگو سنی اور اپنی رائے بھی کہ آپ جو بات کر رہے ہیں کہ اس سے رئیل اسٹیٹ کی تباہی کی بنیاد رکھی جائے گی کیونکہ مقابلہ سیاستدانوں اور بیوروکریسی سے ہے‘ یہاں ہونے والی میٹنگ کے بعد ایف بی آر میں ہماری میٹنگ ہوئی‘ وہاں اس وقت کے چیئرمین ایف بی آر نثار محمد خان اور ان کے ہمراہ ہمایوں اختر سے ملاقات تھی‘ چیئرمین ایف بی آر نے افسر شاہی کے مزاج کے ساتھ یک طرفہ گفتگو کی اور رئیل اسٹیٹ سے وابستہ افراد سے کہا کہ آپ کو کیا پتہ کہ رئیل اسٹیٹ بزنس کیا ہوتا ہے‘ فلاں فلاں فلاں‘ یوں انہوں نے دبانا شروع کردیا‘بہر حال انہوں نے لمبی تقریر کی‘ جب بات مکمل کرلی تو ہر جانب سٹانا‘ میں نے یہ سناٹا توڑا اور کہا کہ”جناب نثار صاحب‘ سنبھل کر بات کریں‘ اور بس پھر انہیں ان کے ہر اعتراض کا جواب دیا تو چیئرمین ایف بی آر نثار خان کے علاوہ ہمایوں اختر بھی خاموش ہوگئے‘ انہوں نے سب سے کہا کہ جائیں اور دوبارہ سوچ کر آئیں پھر بات ہوگی‘ میں نے کہا کہ آپ یہاں سے جائیں اور ہمیں ایف بی آر کا یہ ہال دیں تاکہ ہم یہاں بیٹھ کر آپس میں بات کرسکیں‘ وہاں بات تو ہوئی لیکن افسوس کہ بات ایف بی آر نے ہی اپنی منوائی‘ مجھے اسحاق ڈار نے کہا کہ پریس کانفرنس میں میرے ساتھ کھڑے ہوجاؤ مگر میں نے انکار کردیا‘ لیکن دوسرے تمام رہنماء ایک دوسرے کو دھکا دیتے ہوئے پریس کانفرنس میں ضرف اپنی تصویر کے چکر میں اسحاق ڈار کے ساتھ چمٹے رہے
س…… آپ نے کچھ اس کمیونٹی کے لیے کیا بھی ہے؟
ج…… میں نے اس کمیونٹی کے لیے بہت کچھ کیا‘ سی وی ٹی میں نے ہی معاف کرایا ہے
س…… آپ کیا چاہتے تھے
ج…… میں چاہتا تھا کہ اسحاق ڈار کے ساتھ مزاکرات نہ کیے جائیں بلکہ بائی کاٹ کیا جائے‘ اسی میں ہمارا فائدہ تھا مگر میری رائے کسی نے نہیں سنی‘ پلاٹوں کی قیمت کے تعین کا ایشو تھا‘ یہ بڑا ایشو ہے‘ میں نے تجویز دی کہ پانچ سو گز کے پلاٹ کی قیمت ایک کروڑ رکھی جائے‘ وہاں روئف عالم نے کہا کہ وہ ایف ایٹ میں انہیں اتنے سائز کا پلاٹ دس کروڑ میں لے کر دکھائیں
س…… گویا انہوں نے یہ بات کرکے قیمت مصنوعی بڑھائی
ج…… ظاہر ہے‘
س…… پھر کیا ہوا‘
ج…… ہم نے اپنی جدوجہد جاری رکھی‘ پہلا کنونشن اگست2017 میں بلایا‘ جس کے لیے میں نے ملک بھر میں رابطے کیے معلوم ہوا کہ پورے ملک میں نو ایسو سی ایشنز ہیں جن کے عہدیدار منتخب ہیں‘ بہر حال انہیں ساتھ ملایا اور نو رکنی کمیٹی بنائی گئی‘ فیصلہ یہی تھا کہ ایک فیڈریشن بنائی جائے اس کے قیام کی سب سے پہلے مخالفت اسلام آباد رئیل اسٹیٹ ایسو سی ایشن نے کی تھی‘ بہرحا ل ہم نے رئیل اسٹیٹ بزنس سے وابستہ لوگوں کے کنونشن بلائے‘ کراچی میں‘ لاہور میں رابطے کیے‘ اسلام آباد کلب میں اجلاس بلایا‘ مشاورت کے ساتھ میجر(ر) رفیق حسرت کو عبوری سربراہ بنایا گیا‘ یہ ایک عبوری سیٹ اپ تھا‘س…… یہ بتائیے کہ پلاٹوں کی قیمت کا تعین کیسے ہوتا ہے
ج…… یہ ضلعی انتطامیہ اور ایف بی آر کے ذریعے کہہ لیں‘ ان کی مشاورت کہہ لیں یا ان کی سفارشات کی روشنی میں‘ کراچی میں ٹیکس کے ایشو پر ڈیفکلیریا کا اپنا اعتراض تھا بہر حال اب قیمت کا تعین اس طرح ہوتا ہے کہ چیف کمشنر خود‘ رئیل اسٹیٹ کے لوگوں کو بلاتے ہیں اور قیمتوں کا تعین ہوتا ہے‘ جیسا کہ عرض کیا ہے کہ انہی رابطوں میں‘ میں نے فیڈریشن کے قیام کی تجویز دی‘ جسے آج فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کہا جاتا ہے‘ رئیلٹر لفظ میں نے امریکی ڈکشنری سے لیا تھا‘ اس وقت میں نے تہیہ کرلیا تھا اور اس بارے میں چیمبر کے دوستوں کو بھی چیلنج دیا تھا کہ ایک فیڈریشن کھڑی کرنا چاہتا تھا‘
س…… یہ کام ہوسکتا ہے؟
ج…… ہوگا اور ضرو ہوگا
س…… جس فیڈریشن کی آپ بات کرتے ہیں اس کی تو رجسٹریشن ہی نہیں ہوسکی‘ اس کی وجہ کیا ہے
ج…… اس کی ٹیکنیکل وجہ ہے‘ ڈی جی ٹی او کا موقف ہے کہ الیکشن ہر سال ہوگا‘ یہ ویلفیئر فورم نہیں ہوگا اور ہر ممبر ووٹ دے گا‘ ویسے بھی ان کے پاس پہلے سے ہی تین اور درخواستیں پڑی ہوئی ہیں‘ لیکن ہم بھی کچھ ڈھیلے پڑ گئے ہیں کہ ہر سال الیکشن کراؤ‘ اور ویلفیئر بھی نہ کرسکو‘ تو پھر فائدہ کیا‘ ویلفیئر کے محکمے تو ویسے بھی اب صوبوں کے پاس ہے‘ کچھ فنی مسائل ہیں جس کی وجہ یہ پیش رفت نہیں ہوئی
س…… مگر رجسٹریشن نہ ہونے کے باوجود نام تو استعمال ہورہا ہے
ج…… ہاں یہ تو ہورہا ہے‘ مگر قانون سازی کے لیے بھی پیش رفت جاری ہے کوئی نہ کوئی شکل نکل ہی آئے گی ہمیں ڈی جی ٹی او کی جانب سے یہ یقین دلایا گیا ہے
س…… آپ خود کسی بھی عہدے کے لیے سر گرم امیدوار نہیں بنے
ج…… جب تک اس بارے میں کوشش ہوتی رہی‘ دوستوں کو اکٹھا کیا تو کچھ مہربان دوستوں نے کہا تھا کہ اتنی محنت کی ہے تو کوئی عہدہ بھی لیں‘ میں نے عہدہ ذمہ داری ہوتی ہے‘ لیکن دوستوں کے اصرار پر سامنے آیا اور الیکشن میں خود بھی حصہ لیا لیکن ووٹ برابر ہوگئے‘ اس کے بعد طویل مشاورت ہوتی رہی جس کے بعد فیصلہ ہوا کہ سب باہم مل کر ایک متفقہ باڈی بنالیں اس طرح سردار طاہر محمود صدر بن گئے اور چیئرمین مجھے بنایا گیا
س…… چیئرمین کے پاس تو اختیار ہی نہیں‘
ج…… یہ بات ٹھیک ہے اختیار نہیں ہے‘ پہلے تجویز کچھ اور تھی مگر تجویز یہیتھی اور فیصلہ بھی یہی ہوا‘ اسی لیے صدر کو اختیار دیا گیا ہے
س…… متفقہ باڈی بن جانے سے گویا اپوزیشن حکومت میں شامل ہوگئی
ج…… میں آپ کے سوال کو سمجھ گیا ہوں لیکن یہی کہوں گا متفقہ باڈی بن جانے کے بعد اب سب کی ذمہ داری ہے مل کر کام کریں
س…… یہ بتائیں کہ کیا کوئی ایسا پلان بھی ہے کہ آپ لوگ جو سینیئر ہیں‘ اس روز گار کو اپنانے والے جونیئر اور ینگ رئیلٹرز مارکیٹ میں آرہے ہیں ان کی تربیت کے لیے کوئی ورکشاپس کریں تاکہ انہیں اس کاروبار کے مثبت پہلو سکھا سکیں‘ یا وہ خود اپنی دنیا آپ بنائیں گے
ج…… یہ بہت ضروری ہے‘ ہم ایک ایسا نظام لارہے ہیں کہ اس بزنس میں نئے آنے والوں کے لیے ایک تربیتی پروگرام ہوگا جس کے بعد انہیں سرٹیفیکیٹ بھی دیا جائے گا
س…… اپنی گفتگو میں آپ نے ذکر کیا کہ ضیاء الحق سے آپ کی ملاقات ہوئی انہیں بہت عاجز پایا‘ ان کے دور میں اسلام بھی آیا اور منشیات بھی‘ اس کے باوجود آپ انہیں عاجز کہہ رہے ہیں‘ کیا آپ اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ منشیات کی لعنت اسی دور میں آئی اور لوگوں نے خوب کمائی کی‘ اس بارے میں آپ تجربہ اور مشاہدہ کیا ہے دوسری بات یہ بھی بتا دیں کہ اس وقت پیپلزپارٹی کے کچھ افراد پر یہ الزام لگا کہ وہ پاکستان سے لوگوں کو بیرون ملک بھجواتے ہیں اور انہیں سیاسی پناہ دلواتے رہے ہیں
ج…… دیکھیں ضیاء دور میں ملک میں واقعی بہت منشیات آئی‘ ضیاء دور میں یہ کاروبار عروج پر تھا‘ بڑے بڑے لوگوں کے نام اس میں لیے جاتے ہیں جنہوں نے اس گنگا میں ہاتھ دھوئے‘ کلاشنکوف بھی اسی دور میں آئی‘ ضیاء دور میں منشیات کا دھندہ بہت عام تھا‘ بہت پیسہ کمایا گیا‘ پیجیرو گاڑی بھی اسی دور کی پیداوار ہے سیاست میں بددیانتی بھی ضیاء دور میں ہی آئی‘ ارکان اسمبلی کرپٹ ہوئے‘ انہیں لائسنس دیے گئے‘ زکوۃ اور عشر کے نظام تو آیا مگر اس میں بے قاعدگی بھی ہوئی‘ جنرل ضیاء نے سولین عہدوں پر فوجی افسر لگا دیے‘ ایک فوجی آفیسر غلام حسین نے تو کہہ دیا تھا کہ آپ ہمارا کتنا اور امتحان لیں گے‘ لوگ میرے پاس پیسوں کی بوریاں لے کر آرہے ہیں کہ پیسہ لو اور ان کا کام کروں‘ انسان کا صبر آخر کب تک اس کا ساتھ دے سکتا ہے‘ ضیاء الحق نے اسلام کا نام اس لیے استعمال کیا کہ انہیں اندازہ ہوا کہ بھٹو کو اس وقت مقبولیت ملی جب انہوں نے پارلیمنٹ میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا اور اسمبلی کمیٹی میں ایک طویل مباحثہ کے بعدختم نوبتﷺ کا قانون پاس کیا‘ اور ضیاء الحق نے دیکھا کہ ملک میں لوگوں میں اسلام سے محبت ہے لہذا اسلام کا نام استعمال کیا‘ میں مانتا ہوں کہ اس دور میں منشیات سے لوگوں نے بہت کمائی کی ہے‘ انہوں نے یہ غلط کام بھی کیا کہ لوگوں کو مفت عمرے کرائے اور مفت لوگوں کو حج کے لیے بھیجا‘ پیسہ تو حکومت کا تھا‘ کیوں اس طرح استعمال ہوا یہ المیہ ہے‘ جہاں تک بیرون ملک سیاسی پناہ کی بات ہے‘ ایسی کوئی بات ہی نہیں‘ ضیاء کے زمانے میں تو ملک میں مارشل لاء تھا‘ پیپلزپارٹی زیر عتاب تھی اس کے چیئرمین کو پھانسی لگائی گئی تھی یہ تو حالات خود ہی سازگار تھے کسی کی سفارش کی ضرورت ہی نہیں تھی‘ جو بھی کسی یورپ کے سفارت خانے میں جاتا اور اپنی مشکل بتاتا اسے ویزا مل جاتا تھا ہیومن اسمگلنگ صرف کہانی ہے اس سے ذیادہ کچھ نہیں
[8:15 PM, 5/26/2020] Munir Ahmed: کورونا وباءکے سبب لاک ڈاون کے نتیجے میں بھارت میں پھنسے ہوئے مزید 176 پاکستانی اٹاری، واہگہ سرحد کے راستے کل بروز بدھ مورخہ 27 مئی 2020 کو وطن واپس پہنچیں گے۔ یہ پاکستانی شہری بھارت کی مختلف ریاستوں چھتیس گڑھ، گجرات، مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا، پنجاب، راجستھان، اتر پردیش، اتر کھنڈ اور دہلی میں لاک ڈاون اور کورونا وباءکے باعث اٹاری، واہگہ سرحدی راستہ بند ہونے کے باعث رکنے پر مجبور ہوئے تھے۔ ان پاکستانیوں کی محفوظ وطن واپسی کے لئے وزیراعظم عمران خان کی ہدایات کی روشنی میں نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشن بھارتی حکام اور پاکستان میں دفتر خارجہ اور دیگر حکام سے مسلسل رابطے میں رہا اور اشتراک عمل میں سہولت فراہم کی۔ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشن نے لاک ڈاون کے دوران بھارت کے بیس سے زائد مختلف شہروں سے اٹاری تک ان پاکستانی شہریوں کو بہترین انداز سے لانے کے انتظامات…
[8:31 PM, 5/26/2020] Munir Ahmed: پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائنز کی فضائی تاریخ میں اسلام آباد سے نان سٹاپ امریکہ کیلئے پرواز کا شیڈول جاری کر دیا گیاہے ، جس سے مسافروں کو بہت حد تک آسانی ملے گی ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیاہے کہ امریکہ کیلئے نان سٹاپ پرواز 31 مئی کو اسلام آباد سے صبح 8 بجے اڑان بھرے گی اور امریکی وقت دوپہر ایک بجے یہ پرواز نیویارک میں لینڈ کرے گی ۔پی آئی اے کی جانب سے امریکہ کی پرواز کیلئے بوئنگ 777 طیارہ استعمال کیا جائے گا