آج کی صنفِ آہن
سلمان احمد صدیقی (وصفیؔ)
میٹھی زبان سے کہی ہر کٹروی بات مان لیتی ہے
قسمت جانے پھر بھی کیوں عورت کا امتحان لیتی ہے
ہر کسی پر اپنا حالِ دل عیاں نہیں کرتی
انجان بنی رہتی ہے گو کہ سب جان لیتی ہے
قدرت نے اک سرمائیے سے نوازا ہے اُسے
عورت اچھی برُی ہر نظر پہچان لیتی ہے
ماں کی گھنی چھاؤں اور رفیقہ حیات کی لازوال وفا
ہر شخص کی پرواز اِن سے اُونچی اُڑان لیتی ہے
بیٹی کی بے مثال چاہت اور بہن کا انمول پیار
باپ بھائی کی ہر مشکل اِن میں ڈُھونڈ امان لیتی ہے
کل کی صنفِ نازک آج صنفِ آہن ہے
وہ سب کر گزرتی ہے جب ٹھان لیتی ہے
جو چوٹ کھائے بیٹھی ہو اُس سے کچھ بھی ممکن ہے
بڑی سے بڑی مشکل کو پھر وہ آسان لیتی ہے
اسے دیوار سے لگانے والو، اُس وقت سے ڈرنا
وصفیؔ دکھیاری کی آہ تو چُھو آسمان لیتی ہے
کراچی ۔ ۷ مارچ ۲۲۰۲ء