روس کی میزبانی میں افغانستان سے متعلق علاقائی سلامتی کے اجلاس میں افغانستان کی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ملک میں موجود ہر قسم کے دہشت گرد گروپس ختم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے اور اقدامات سے یقینی بنائے کہ ان کی سرزمین دہشت گردی کے مرکز کے طور پر استعمال نہ ہو۔
روس کی وزارت خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ افغانستان سے متعلق علاقائی سلامتی کے اجلاس میں چین اور بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک نے شرکت کی۔
افغانستان سے سیکیورٹی اقدامات میں اضافے کا مطالبہ افغانستان سے متعلق پانچویں ماسکو فارمیٹ کنسلٹیشن کے دوران ہوا، اجلاس میں چین اور بھارت کے علاوہ پاکستان، ایران، قازقستان، کرغزستان، روس، ترکمانستان اور ازبکستان کے اعلیٰ عہدیداروں شریک تھے۔
سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور ترکیہ کے نمائندوں نے بھی بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔
یہ اجلاس جمعے کے روز روس کے شہر کازان میں ہوا۔
اجلاس کے بعد روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اجلاس کے شرکا نے افغانستان میں بنیادی طور پر دہشت گرد گروہوں بالخصوص داعش کی کارروائیوں کی وجہ سے سیکیورٹی کی چیلنجنگ صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
شریک ممالک نے موجودہ افغان حکام پر زور دیا کہ وہ افغانستان میں موجود ہر قسم کے دہشت گرد گروپوں کو ختم کرنے، ان کو روکنے، ملک کو دہشت گردی و عدم استحکام کا گڑھ بننے اور ان عناصر کے علاقائی ریاستوں تک پھیلاؤ کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کریں۔
انہوں نے صنعتی منشیات کی پیداوار سمیت مؤثر انسداد منشیات پالیسی جاری رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
شرکاء نے موجودہ افغان حکام پر زور دیا کہ وہ افغان سرزمین سے پیدا ہونے والی دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے علاقائی ممالک کے ساتھ اپنے تعاون کو مضبوط کریں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ زیادہ تر شرکا نے بیرونی قوتوں کی جانب سے افغانستان میں دہشت گردی کی حمایت کی مخالفت پر زور دیا۔
شرکا نے موجودہ افغان حکام پر زور دیا کہ وہ افغان عوام کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے، ان کی مزید نقل مکانی کو روکنے اور مہاجرین کی واپسی کے لیے ضروری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
خیال رہے کہ پاکستان نے بارہا سرحد پار دہشت گردی کے لیے عسکریت پسندوں کی جانب سے افغان سرزمین کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے، ایک حالیہ بیان میں پاکستانی فوج نے عسکریت پسندی میں اضافے پر افغانستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ محفوظ پناہ گاہیں اور کارروائی کی آزادی کے ساتھ ساتھ افغانستان سے عسکریت پسندوں کو دستیاب جدید ترین ہتھیاروں نے انہیں پاکستان کے اندر حملے کرنے کے قابل بنایا۔
پاک فوج نے کہا تھا کہ توقع ہے کہ افغان حکومت عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے گی اور دوحہ معاہدے کی پاسداری کرے گی۔