آج سے پانچ دہائیاں قبل دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں ٹی وی کی نشریات کا آغاز ہوچکا تھا۔ لیکن پاکستان اور دیگر ممالک ابلاغ کے اس جدید دور میں ابھی داخل ہونے کے لئے پر تول رہے تھے۔ اس موقع پر جاپان نے پاکستان میں ٹیلی ویژن کے آغاز میں مدد کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ اس مقصد کےلئے ٹیکنالوجی کی فراہمی کے ساتھ عملے کی تربیت کے لئے جاپانی ٹیم بھی روانہ کی گئی۔ جناب ایچی کاوا اکیرا آج کل جاپان کی ایدوگاوا یونیورسٹی میں اعزازی پروفیسر ہیں وہ بھی اس تربیتی ٹیم میں شامل تھے۔جاپان پاکستان سفارتی تعلقات کے ستر سال مکمل ہونے کی مناسبت سے این ایچ کے کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے لاہور میں اپنے قیام اور وہاں سے وابسطہ یادوں کے بارے میں بتایا۔
لاہور آمد اور مشن کا آغاز
ایچی کاوا اکیرا صاحب بتاتے ہیں، ’’1964 کی اُس رات جب میں لاہور کے ہوائی اڈے پر اترا تو تھکن سے چور تھا کیونکہ جاپان سے لاہور پہنچنے کے لئے میں نے ٹوکیو سے ہانگ کانگ، ہانگ کانگ سے بنکاک اور بنکاک سے نئی دلی اور نئی دلی سے کراچی اور کراچی سے لاہور کا سفر کیا تھا‘‘۔ یہ وہ دن تھے جب جاپان سے پاکستان کے لئے براہ راست پروازیں نہیں ہوا کرتی تھیں ۔ جاپان میں نومبر کا مہینہ کافی ٹھنڈا ہوتا ہے لیکن ایچی کاوا کے لئے لاہور کی کی گرمی حیران کن تھی۔ وہ بتاتے ہیں، ’’اس موسم میں بھی لاہور کی گرمی کا یہ عالم تھا کہ چھت کے پنکھے چل رہے تھے‘‘۔
اُس وقت کی حکومت نے ٹیلی ویژن کی نشریات کے لئے لاہور کا انتخاب کیا تھا اور ایچی کاوا اور جاپانی ٹیم تین ماہ میں آزمائشی نشریات کا آغاز کرنے لئے تیار تھے۔
وہ بتاتے ہیں، ’’پاکستان ٹیلی ویژن کی باقاعدہ نشریات کا آغاز عوام کی جانب سے دیکھنے اور حمایت کرنے سے مشروط تھی۔ قومی شعوری ارتقاء کے لئے اُن آزمائشی نشریات میں ہم خبریں اور تفریحی پروگرام نشر کرتے تھے۔ٹی وی لائسنس فیس اور اشتہارات ان نشریات کی آمدنی کے ذرائع میں شامل تھے۔‘‘
جناب ایچی کاوا پاکستان ٹی وی اسٹیشن کے چھت پر
آزمائشی اسٹیشن کا قیام
اُس وقت جاپانی ٹیکنالوجی اڑان بھرنے کے لئے تیار تھی۔ٹوکیو اولیمپکس کی بدولت پہلی دفعہ دنیا اسے تسلیم کرچکی تھی۔ اِس آزمائشی مرکز کے لئے مختلف جاپانی کمپنیوں نے اپنا سازو سامان مہیا کیا تاکہ دنیا جاپانی ٹیکنالوجی کے بارے میں جان جائے اور پاکستان کے وسیع مارکیٹ تک جاپانی مصنوعات کو رسائی حاصل ہو۔ ایچی کاوا اکیرا کہتے ہیں، ’’آزمائشی نشریات کے لئے ہم نے ایک عمارت کے دو کمروں میں سادہ اسٹوڈیو بناکر ہم نے نشریات کا آغاز کر دیا۔‘‘
ایچی کاوا نے مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا، ’’تکنیکی طور پر ہمارے لئے سب سے بڑا مسئلہ لاہور کا گرد وغبار اور ریت سے نبٹنا تھا۔ یہ ہوا کے ساتھ اسٹوڈیوز کے اندر آجاتا جس سے مشینوں کے خراب ہونے کا اندیشہ تھا۔اس لئے ہمارا سب سے پہلا ہدف ریت کو اندر آنے سے روکنا تھا۔‘‘
تربیت کے خدوخال
تکنیکی تربیت کے لئے صبح کے وقت کلاسوں کا اہتمام کیا جاتا تھالیکن سب سے کارگر چیز، ایچی کاوا اکیرا کے نزدیک کام کے دوران دی جانے والی تربیت ہے۔ جسے آن جاب ٹریننگ یا او جے ٹی کہتے ہیں۔ یہ موقع و محل کے لحاظ سے کیمرے اور اسٹوڈیو کے استعمال سے پروگرام بنانے کی تربیت کا اہم ذریعہ تھا۔ ان کا کہناتھا، ’’اس لئے ہم نے لیکچرز کی تعداد کو ممکنہ حد تک کم سے کم کردیا اور پاکستانی اسٹاف کے ساتھ مل کر ماڈل پروگرام بناتے اور سوچتے گئے۔‘‘
ٹی وی سے جمہوریت کی مدد
اُن دنوں پاکستان میں صدر ایوب خان کی حکومت تھی۔ ایچی کاوا بتاتے ہیں، ’’پاکستان آتے ہوئے میرے سنئیرز نے مجھے بتایا تھا کہ پاکستان میں اِس وقت فوجی حکومت ہے اس لئے کام ذرا مشکل ہوگا۔ اس لئے ہم نے سخت ماحول کے لئے خود کو تیار کرلیا تھا۔‘‘ وہ مزید بتاتےہیں، ’’جب صدر ایوب ٹی وی اسٹیشن آئے تو ہم نے انہیں ایک بلکل مختلف شخصیت پایا۔وہ لندن سے پڑھے ایک تعلیم یافتہ آدمی تھے۔انہوں نے ہم سے بات چیت کرتےہوئے کہا کہ پاکستان میں اس وقت بنیادی جمہوریت ہے اس وقت یہاں جاپان کی طرح مکمل جمہوریت نافذ نہیں کی جا سکتی لیکن پاکستان کو مکمل جمہوریت کے لئے تیار کرنے کے لئے ہم لوگ ٹی وی کے قیام میں مدد کرکے اپنا حصہ ڈالیں۔‘‘
بادشاہی مسجد لاہور
کم بجٹ میں معیاری پروگرام
اِن آزمائشی نشریات کے لئے تکنیکی ساز وسامان جاپان نے فراہم کئے تھے۔ لیکن پروگرام پر اٹھنے والے اخراجاب حکومت پاکستان نے اٹھانے تھے۔ایچی کاوا کہتے ہیں، ’’فنڈز کی ہمیشہ کمی رہتی تھی۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے میں نے جاپان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کم خرچ اور معیاری پروگرام بنانے کا منصوبہ پیش کیا جسے منظور کر لیا گیا۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ “اشارہ” کے نام سے انہوں نے ایک پروگرام شروع کیا جس میں فنکاروں کو چپکے سے ایک کردار بتا دیا جاتا اور وہ منہ سے کچھ بولے بغیر اس کردار کی ادا کاری کرتے اور حاضرین اندازہ لگاتے کہ کردار کونسا ہے۔
نئے فنکاروں کے جزبے سے ایچی کاوا کو اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں مدد ملی۔ وہ بتاتے ہیں، ’’اِس پروگرام کے اداکاروں کے انتخاب کے لئے جب اشتہار دیا گیا تو بہت سارے لوگ آڈیشن (ٹیسٹ) کے لئے جمع ہوئے۔ ان لوگوں میں اُس زمانے کے فلمی اداکار بھی شامل تھے۔ یہ ایک کم خرچ پروگرام تھا لیکن ناظرین نے اسے بہت پسند کیا۔‘‘
اُس وقت کے اسٹوڈیو میں بچوں کے ایک ٹی وی پروگرام کی تیاری
گلیوں میں ٹی وی
اُس زمانے میں چونکہ ہر گھر میں ٹی وی سیٹ نہیں تھے اس لئے چوکوں، چوراہوں، گلیوں اور کھلے مقامات جیسے پارک وغیرہ میں ٹی وی اسکرین نصب کئے گئے تاکہ لوگ اس جدید ذریغہ ابلاغ سے لطف اندوز ہوسکیں۔ یہ طریقہ لاہور کے لوگوں نے پسند کیا اور ہر ٹی وی سیٹ کے سامنے ناظرین کی بڑی تعداد جمع ہونے لگی۔ ایچی کاوا اکیرا بتاتے ہیں، ’’غریب لوگ بال بچوں کے ساتھ ٹفن میں کھانا لیکر نشریات کے آغاز سے قبل ہی چٹایاں بچھاکر اُن ٹی وی سیٹوں کے سامنے بیٹھ جایا کرتےتھے۔جب نشریات کا آغاز ہوتا تو ناظرین بہت خوش ہوتے اور پروگراموں کی خوبیوں اور خامیوں پر تبصرہ کرتے۔ ہم پاکستانی اور جاپانی پروڈیوسرز انہیں جزبات کو مدنظر رکھتے ہوئے آنے والے پروگراموں کے بارے میں سوچتے۔‘‘
باپردہ خواتین اناؤنسر
جناب ایچی کاوا کے مطابق پاکستان میں ٹی وی کے ابتدائی دنوں میں یہ بحث زوروں پر تھی کی خواتین اناؤنسروں کا چہرہ دکھایا جائے یا انہیں پردے میں رکھا جائے۔ حکام کی رائے اس حوالے سے منقسم تھی۔ کافی گفت و شنید کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ خواتین کا چہرہ نظر آنے میں کوئی حرج نہیں اور یوں خواتین اناؤنسروں کو اسکرین پر آنے کی اجازت ملی۔
لاہور کی یادیں
لاہور کی کچھ یادیں پچاس سال گرزنے کے بعد بھی ایچی کاوا کے ذہن میں تروتازہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’جب ہم اسٹیشن بنارہے تھے تو یونیورسٹی کے طلباء ہمارے پاس آتے اور مختلف کاموں میں ہمارا ہاتھ بٹاتے۔‘‘ ایچی کاوا اس بات سے بہت متاثر ہیں کہ وہ یہ سب کچھ بلا معاوضہ کیا کرتے تھے۔
جباب ایچی کاوا یونیورسٹی طلباء کے ہمراہ
ان دنوں خزاں کا موسم تھا لیکن ایک ایچی کاوا کے لئے ان دنوں کی گرمیاں بھی مشکل تھیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں اکثر فارغ اوقات میں بادشاہی مسجد چلا جاتا تھا، یہ ایک بڑی اور خوبصورت مسجد تھی اور ٹھنڈی ہوا کرتی تھی، مسجد کی مذہبی اہمیت اپنی جگہ لیکن میں گرمی سے خلاصی کے لئے اس مسجد کا رخ کرتا تھا۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ لاہور ایک بہت خوبصورت شہر ہے۔ بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ، شالیمار باغ اور مقبرہ جہانگیر جیسے تاریخی مقامات انہیں آج بھی یاد ہیں۔ وہ لاہور اور لاہور کے لوگوں سے متاثر ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا، “اب جبکہ پاک جاپان دوستانہ تعلقات کے 70 سال ہوچکے ہیں اس موقع پر میں آپ کی رحمدلی پر آپ شکریہ ادا کرنا چاہوں گا”۔