حکومت پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی مدد سے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کی مدت ملازمت بارے میں قوانین میں ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ صدر مملکت عارف علوی کے دستخطوں کے بعد اسے پاکستان کے قانون کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ اب وزیر اعظم پاکستان سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد حاصل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3سال کی توسیع کر سکیں گے۔ تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کی مدت ملازمت میں توسیع بارے قوانین میں ترامیم کی منظوری میں ”پس پردہ قوتوں“ نے کلیدی رول ادا کیا ہے وہاں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بھی بڑے ”دریا“ عبور کرنے پڑے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کی مدت ملازمت میں توسیع بارے میں ”غیر مشروط“ حمایت کر کے پاکستان پیپلز پارٹی کی ”بارگینگ پاور“ ختم کر دی اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی ”کار خیر“ میں اپنا حصہ تو ڈالا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بظاہر اپوزیشن کی چار جماعتوں جمعیت علما اسلام (ف)، نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے پارلیمان میں سروسز ایکٹس ترمیمی بلوں کی مخالفت کی لیکن بلوں کی منظوری کے عمل کے دوران واک آؤٹ کر کے عملاً اپنے آپ کو obstain رکھا ا لیکن اب ان جماعتوں کی توپوں کا رخ بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف ہو گیا ہے۔ حکومت کو ان ترامیم کی منظوری میں ”پارلیمانی محاذ“ پر مزاحمت کا کوئی سامنا نہیں کرنا پڑا دلچپ امر یہ ہے کہ پارلیمانی محاذ پر کامیابی میں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کا کوئی کر دار نہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو وزیر دفاع پرویز خٹک جنہوں نے دونوں ایوانوں میں سروسز ایکٹس ترمیمی بل پیش کئے۔ مسودے فوری طور پر فراہم کرنے سے معذوری کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ یہ مسودے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔دو تین روز قبل پارلیمنٹ ہاؤس میں اپوزیشن چیمبر میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال سے اس وقت مڈبھیڑ ہو گئی جب انہیں پروڈکشن آرڈر پر پارلیمنٹ ہاؤس لایا گیا۔ انہوں نے وزیر دفاع کو سروسز سیکٹس میں ترامیم سے عدم اتفاق کرتے ہوئے کچھ تجاویز پیش کیں تو پرویز خٹک نے کہا کہ ان کی تجاویز کو قبول کر کے نیا ”پنڈورہ باکس“ نہیں کھول سکتے۔ ہم اس میں ”کامہ اور فل سٹاپ“ تک تبدیل نہیں کر سکتے لہذا آپ کی مرضی ہے کہ ترمیمی بلوں کی حمایت کریں یا مخالفت۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ احسن اقبال قومی اسمبلی میں ترمیمی بلوں کی منظوری کے عمل سے لاتعلق ہو گئے اور پورا دن نیب ہیڈ کوارٹرز میں ہی گذار دیا۔ اگلے روز مسلم لیگی رہنماؤں نے ”منت سماجت“ کر انہیں پارلیمنٹ ہاؤس میں آنے پر آمادہ کیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہدخاقان عباسی جو جیل جانے سے قبل عملاًٍ پارٹی کی قیادت کر رہے تھے‘ وہ نواز شریف کے ”بیانیہ“ پر ”یو ٹرن“ پر ناراض ہیں۔ انہوں نے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے باوجود پارلیمنٹ ہاؤ س آنے سے انکار کر دیا۔ وہ نجی ہسپتال میں پتے کے آپریشن کے سلسلے میں داخل ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ آنے کی بجائے دوبارہ اڈیالہ جیل جانے کو ترجیح دی ہے۔ایسا دکھائی دیتا ہے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے اندر ”فیصلہ سازی“ میں کہیں کمزوری پائی جاتی ہے جس کے باعث پارٹی میں پائے جانے والے اختلاف رائے کی باز گشت سیاسی حلقوں میں سنائی دے رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف صاحب فراش ہیں جب کہ پارٹی کے صدر میاں شہباز شریف نے بھی لندن میں ”ڈیرے“ ڈال لئے ہیں۔ ان کی فوری طور پر وطن واپسی کا بھی کوئی امکان نہیں۔ پارٹی پر”گرفت“ کمزور ہونے سے مسلم لیگی رہنماؤں“ کے درمیان قیادت کے تنازعات کھڑے ہو رہے ہیں۔ میرے لئے یہ حیران کن بات ہے کہ ایک طرف پارٹی قائد اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے۔دوسری طرف ان کی جگہ لینے کے لئے وزارت عظمیٰ کے چا رپانچ امیدواروں کے درمیان کھینچا تانی کا سلسلہ جاری ہے۔ پارلیمان سے سروسز ایکٹس ترمیمی بلوں کی منظوری نے جہاں حکومت کو ایک آئینی بحران سے نکال لیا ہے وہاں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو شدید دھچکا لگنے کے ساتھ مسلم لیگی رہنماؤں کے درمیان غلط فہمیوں کو جنم دے دیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ ”میاں نواز شریف نے سروسز ایکٹس میں ترمیمی بلوں کی مشروط طو پر حمایت کی ہدایت کی تھی اور کہا تھا کہ”ان بلوں کے تحت ایک دفعہ سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار وزیر اعظم کو دیا جائے اور اس میں ”sun set“ کی شق شامل کی جائے لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ترمیمی بل میں ”کامہ اور فل سٹاپ“ تک تبدیل کرائے بغیر غیر مشروط طور حمایت کر دی۔ قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں عسکری قیادت کی مدت ملاز مت میں توسیع بارے میں ”غیر مشروط“ حمایت“ پر پارٹی کے بعض ارکان کی طرف سے کی جانے والی تنقید پر سب سے زیادہ”رنجیدہ“ ہیں۔ وہ ان دنوں جہاں ”گرم پانیوں“ میں ہیں وہاں ان کے سیاسی مخالفین بھی ان پر پھبتی کس رہے ہیں۔وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد حسین چوہدری نے بھی مسلم لیگ (ن) کے اندر ”جنگ و جدل“ کا مذاق اڑایا ہے اور کہا ہے کہ اب تو خواجہ آصف کو پارٹی اجلاسوں میں نہیں بلایا جاتا۔ خواجہ آصف نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ان کے موقف کا دفاع نہ کرنے اورپاکستان مسلم لیگ (ن) ”پارلیمانی ایڈوائزری گروپ“ میں کی جانے والی تنقید پر ”وٹس گروپ“ کو چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ ”سروسز ایکٹس ترمیمی بلوں کی حمایت پارٹی کے قائد میاں نواز شریف کا فیصلہ ہے۔ یہ میرا فیصلہ ہے اور نہ ہی میاں شہباز شریف کا۔ جس کسی کو اعتراض ہے میں اس کو میاں نواز شریف کا فون نمبر دیتا ہوں ان سے اس تصدیق کر سکتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے پارٹی کچھ ارکان نے ان کی بات سے اختلاف رائے کا اظہارکیا اور اس بات پر اصرار کیا کہ ”میاں نواز شریف نے ترمیمی بلوں کی مشروط حمایت کی بات کی تھی اور کہا کہ اس میں sun set“ کی شق شامل کی جائے لیکن ان کی اس ہدایت کو نظر اندازا کر دیا گیا“۔پارٹی اجلاس میں موجود سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ میں نے میاں نواز شریف سے مسلم لیگ (ن) پارلیمانی ایڈوائزری گروپ کے رہنماؤں کی ملاقات میں ہونے والے بات چیت بارے میں کوئی بات نہ کرنے کا حلف اٹھا رکھا ہے لہذا میں کوئی بات نہیں کروں گا تاہم انہوں نے خواجہ آصف کے موقف کی تاہید کی پارٹی کے ذمہ دار افراد نے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو پارٹی کی قیادت کے اندر پائی جانے والی“سردجنگ“ سے آگاہ کر دیا ہے۔ میاں شہباز شریف آئندہ چند دنوں میں پارٹی رہنماؤں سے ”وڈیو لنک“ پر بات چیت کریں گے اور اس تنازعہ کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ پارلیمانی پارٹی کے بعض ارکان اعلیٰ قیادت سے اس بارے میں ذمہ داری کا تعین کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ”ہمیں اس بات کا پتہ ہے کہ ہمارے فیصلہ سے رائے عامہ ہمارے خلاف ہے، میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا، میاں نوازشریف کی طرف سے حکم ملا میں نے وہی کیا،پارٹی کا فیصلہ تھا جس کی ہم نے تکمیل کی۔ یہ بالکل درست فیصلہ تھا مجھے اس پر کسی قسم کا دکھ نہیں۔ خواجہ آصف نے اس بات کا برملا اعتراف کیا ہے کہ جب رائے عامہ مخالف ہو جائے تو سیاستدان کی سیاست ختم ہوجاتی ہے“۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت بلوں کی منظوری کا سارا ”ملبہ“ پاکستان مسلم لیگ (ن) پر ڈالنے کی کو شش کر رہی ہے جب کہ قومی اسمبلی میں ترمیمی بلوں میں تین ترامیم پیش کر کے حکومت کی درخواست پر ان سے دستبرداری کا ڈرامہ رچایا گیا۔
