کچہری
میاں منیر احمد
زمانے کی قسم‘بے شک انسان خسارے میں ہے‘ مگر وہ لوگ جو ایمان لائے‘ نیک عمل کرتے رہے‘ ایک دوسرے کوحق اور صبر کی تلقین کرتے رہے‘ یہ قرآن کے الفاظ ہیں‘ یہ کسی انسان کے الفاظ نہیں ہیں‘ تاہم ان لفظوں کا مخاطب انسان ہی ہے‘ جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے‘ شر پھیلانے اور خیر بانٹنے والے دو گروہ بھی اس کے ساتھ ہی وجود میں آگئے‘ جوں جوں دنیا آگے بڑھتی رہی یہ گروہ بھی نہر کے دو کناروں کی طرح ساتھ ساتھ چلتے رہے لیکن‘ کامیاب کون ہیں؟ اور ناکام کون! اس کا فیصلہ اللہ نے اپنے کلام میں کردیا ہے‘ قرآن مجید فرقان حمید ہماری زندگی کے ہر موڑ پر ہمارے لیے راہنمائی کا باعث ہے یہ راہنمائی کس کے لیے ہے اس کی ایک جھلک سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات میں درج ہیں کہ ہدائت ہے متقی لوگوں کے لیے‘ وہی فلاح پائیں گے‘ فلاح ہے کیا؟ دنیاوی کامیابی ہر گز ہر گز نہیں‘ فلاح تو اصل میں فوز عظیم ہے‘ قیامت کے روز جس کے دائیں ہاتھ میں اس کے اعمال دیے جائیں گے اصل میں وہی کامیاب ہوگا‘ یہ کامیابی کیسے مل سکتی ہے اور انسان کو اس کے لیے کیا کرنا ہوگا‘ صرف ایک کام‘ جی ہاں صرف ایک کام‘ اللہ کا خوف دل میں بٹھا کر اپنی دینی اور دنیاوی ذمہ داریاں پوری کرنا‘ صرف یہی ایک کام انسان کو فوزعظیم تک لے جائے گا‘ ممتاز داعی مولانا مودودی کو مطالعہ کریں تو ہمیں ایک نصیحت ملتی ہے کہ انسان اس بات سے نہ گھبرائے کہ دنیا کے رجسٹر میں اس کا نام کہاں لکھا جاتا ہے اسے فکر یہ ہونی چاہیے کہ اللہ کے رجسٹر میں اس کا نام کہاں لکھا جاتا ہے؟ ڈسٹرک ہسپتال راولپنڈی کی ایم ایس ڈاکٹر پروفیسر فرزانہ ظفر‘2019 میں یہاں تعینات ہوئیں‘ اور اب اپنی مدت ملازمت مکمل کرکے 8 مارچ کو ریٹائر ہورہی ہیں‘ اپنی تعیناتی کے بعد انوں نے ہسپتال کے تمام شعبوں میں بہت سے فلاحی کام کیے، کام میں بہتری لائیں‘ اور متعدد نئے شعبے قائم کیے‘ وہ محنت‘ دیانت‘ فرض شناسی کی لازوال میراث چھوڑ کر جارہی ہیں‘ جس طرح یہ دنیا دو گروہوں میں بٹی ہوئی ہے‘ دوہرے معیار ہیں‘ جیسا کہ یہ چور سے کہتے ہیں چوری کر اور شاہ سے کہتے ہیں تیرا گھر لوٹ لیا، انہیں بھی یہاں اپنی تعیناتی کے دوران بے شمار چیلجنز درپیش تھے‘ کسی نے انکوائری شروع کرانے کی دھمکیاں دیں‘ کسی نے سفارش کلچر لانے کی کوشش کی‘ کوئی اوپر سے پرچی لے آیا‘ مگر ایم ایس ڈاکٹر پروفیسر فرزانہ ظفر نے میرٹ کا دامن نہیں چھوڑا‘اُن کا مشاہدہ‘ مطالعہ بہتوسیع تھا،اعلیٰ پائے کی منتظم رہی ہیں اسی لیے تمام معاملات پر انتہائی مہارت کے ساتھ اپنی ایک مکمل اور منظم رائے کے ساتھ حل کرتی چلی گئیں اپنی خوش مزاج‘ ملنسار‘ اور اپنے کام سے غرض رکھنے کے باعث اللہ بھی ان کی مدد کرتا رہا‘ اس وقت ہسپتال میں ایک مکمل نظم و ضبط ہے، قواعد و ضوابط کی پابندی کا ماحول ہے اور قانون کی پاسداری کی بہار ہے جسے قائم رہنا چاہیے کیونکہ ہمارے قائدا اتحاد، ایمان اور تنظیم کا سبق دے کر گئے ہیں اور یہی ہم پاکستانیوں کے لئے مشعل ِ راہ ہے اور آج اس کو نئے سرے سے پڑھنے کی ازحد ضرورت ہے‘ جس بھی معاشرے میں عدم برداشت کا ماحول ہوگا اس معاشرے میں ہر کوئی خود کو صحیح اور دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے اور اسی کی پسلی سے عدم استحکام جنم لیتا ہے‘ ہمارے اداروں میں بہت سے ایسے ہیں جنہیں منصب ملے ہوئے ہیں مگر وہ بہت کم ہیں جوعام لوگوں کی اُمیدوں پر پورا اُترتے ہیں لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا اور پھر اسے بحال رکھنا قائم رکھنا ایک مشکل کام ہے اس کے لئے بہت محنت کرنا پڑتی ہے‘ یہ محنت ڈاکٹر فرزانہ نے کرکے دکھائی ہے جب وہ یہاں تعینات ہوئی تھیں اس وقت بھی ہسپتال میں بے چینی تھی کہ ان کے ایک عارضی پیش رو نے لوگوں کا ناک میں دم کرکے رکھا ہوا تھا‘ اب وہ ریٹائر ہو کر جارہی ہیں تھیں بہت سے چہرے کھل اٹھے ہیں اور بہت سے چہرے مرجھائے ہوئے ہیں کہ اب ہسپتال کا کیا ہوگا، اس کا کیا بنے گا، اگر یہاں میرٹ رہا‘ فرض شناسی رہیہر کوئی اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری، محنت، لگن اور خلوصِ نیت کے ساتھ کرتا رہا تو ہسپتال کا مثبت تاثر بنا رہے گا یہی سب کے ہی حق میں بہتر ہو گا۔ مناسب یہی ہے کہ سب مل کر کوشش کریں کہ یہاں ڈاکٹر فرزانہ ظفر نے جس میرٹ کی بنیاد رکھی ہے وہ قائم رہے‘ سب کے حق میں خیر ہی ہوگی ورنہ جس گھر میں لڑائی جھگڑا رہتا ہے اس گھر کا تو گھڑا بھی سوکھ جاتا ہے
