لفاظ کی تاثیر بھی کیا نرالی شے ہے

ہم نہ باز آئیں گے ،،لکھنے،، کی
باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری

الفاظ کی تاثیر بھی کیا نرالی شے ہے! کبھی چراغ کی لو کی مانند روشنی بکھیرتی ہے، تو کبھی تلوار کی دھار کی مانند زخم لگا جاتی ہے۔ میں نے برسوں قلم سے روشنی پھیلائی، اپنے خیالات کا بے باک اظہار کیا، اور اپنے نظریات کو قرطاس پر بکھیرنے کی جسارت کی۔ میرے خیالات کو عمر خیام کی رباعی کی شکل میں دیکھے جو تلوار پر بھی اور کرتاس پر بھی ایک ہی معنی رکھتی ہے۔مگر ایک دن اچانک دل میں ایک سوال جاگزیں ہوا— کیا میرے الفاظ لوگوں کے لیے بارِ گراں تو نہیں؟
یہ سوال ذہن میں آتے ہی میں نے اپنے گروپ میں، جس میں 256 احباب شامل ہیں، ایک پیغام بھیج دیا: “کیا میں تمہیں تنگ کر رہا ہوں؟ اگر میری تحریریں تم پر بوجھ ہیں تو میں یہ سلسلہ موقوف کر دیتا ہوں!”
جواب آیا، اور ایسا آیا کہ دل کی تمام الجھنیں ختم ہو گئیں! چودھری غلام حسین نے کہا، “چودھری صاحب، آپ اپنی جماعت کا دفاع کر رہے ہیں، تو اب پسپائی کیسی؟” اسد عمر نے کہا، “ہمیں تو آپ کی تحریریں باعثِ طمانیت محسوس ہوتی ہیں، آپ لکھتے رہیے!” وائس آف امریکہ کے دوستوں نے تحریر کی سند دیتے ہوئے کہا، “آپ کے الفاظ میں اثر ہے، روشنی کو بجھنے نہ دیجیے!”عمران میر نے ،،دل بھیجا،،افسر امام شکریہ سراج اور سجاد سواتی نے سراہا
عقیل ترین، جو ہمیشہ کم گو مگر معنی خیز تبصرہ کرتے ہیں، بس اتنا کہہ کر گویا حیرت کا اظہار کر گئے: “چودھری صاحب، یہ کیا فرما رہے ہیں؟” میڈیا ایڈوائزر گل امید، جو ہمیشہ حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہتے ہیں، کہنے لگے، “آپ کو ضرور لکھنا چاہیے، یہ روشنی کبھی مدھم نہیں ہونی چاہیے!”
تزئین اختر کا جواب مشبت تھا
اور پھر روزنامہ اساس کے مدیر ناصر مغل نے جیسے میری سوچ پر ضرب لگائی، “ہم تو آپ کی تحریریں گزشتہ کئی سالوں سے چھاپ رہے ہیں، آپ نے یہ سوال کیوں کیا؟”
پریس کونسلر عرفان چودھری، جو ہمیشہ میری تحریروں میں باریک سے باریک غلطی بھی نکالتے ہیں، وہ بھی گویا ہوئے، “یہ سوال ہی کیوں اٹھایا؟ ہم تو آپ کی تحریروں کے معترف ہیں!” نوجوان ویلفیئر کونسلر، جنہوں نے میری تحریریں ہمیشہ سنجیدگی سے لیں، انہوں نے بھی اظہارِ محبت کیا اور کہا، “آپ کی تحریریں ہمارے لیے ایک فکری رہنمائی ہیں!”
یہ سب سن کر مجھے احساس ہوا کہ کبھی کبھار دوستوں کو چھیڑنا اور ان کی رائے لینا ضروری ہوتا ہے۔ کچھ لوگ خاموش رہتے ہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ لاتعلق ہیں۔ وہ پڑھتے ہیں، سوچتے ہیں، محسوس کرتے ہیں، مگر شاید الفاظ میں اس کا اظہار نہیں کر پاتے۔
لبنیٰ ملک نے بھی ایک بار کہا تھا، “لوگ پڑھتے ضرور ہیں، مگر تبصرہ کم کرتے ہیں!” اور یہی حقیقت ہے! ایک لکھاری کے لیے سب سے بڑا انعام یہی ہوتا ہے کہ اس کے الفاظ کسی کے دل و دماغ میں جگہ بنا لیں۔
اسی دوران انجینئر ارشد داد سے طویل گفتگو ہوئی۔ پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ کہنے لگے، “ہم ہمیشہ سمجھاتے رہے، مگر ،،کسے نیں میری گل نہ سنی؟” پھر عون چودھری کا ذکر آیا۔ ارشد داد کہنے لگے، “میں نے عمران خان کو برسوں پہلے کہہ دیا تھا کہ یہ شخص سانپ ہے، آج دیکھ لو، وہی زہر اگل رہا ہے!”
یہ سب سن کر میرا یقین مزید پختہ ہو گیا کہ میں جو کر رہا ہوں، وہی درست ہے! میرا کام کسی کی خوشنودی حاصل کرنا نہیں، کسی کو ناراض کرنا نہیں، بلکہ حقائق کا آئینہ پیش کرنا ہے۔ کچھ لوگ ناراض ہوں گے، کچھ موافق ہوں گے، مگر اگر میرے الفاظ کسی کے ذہن میں گھر کر لیتے ہیں، تو میں کامیاب ہوں!
جہاں تک فوج کا ذکر ہے، وہ ہماری اپنی ہے، ہماری طاقت ہے، ہماری عزت ہے۔ مگر اگر کوئی بھائی غلط راہ پر چل نکلے، تو کیا اس کی اصلاح نہ کی جائے؟ جو خیرخواہ ہوتے ہیں، وہ فقط مدح سرائی نہیں کرتے، بلکہ سچائی کا دامن بھی تھامے رکھتے ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ آخر کب تک؟ کب تک ہمارے اپنے ہمیں مارتے رہیں گے؟ کب تک 82 سالہ بزرگ خواتین کو قید کیا جاتا رہے گا؟ کب تک اعجاز چودھری جیسے دل کے مریضوں کو جیل میں ڈالا جائے گا؟ کب تک محمود الرشید، عمر سرفراز چیمہ اور نہ جانے کتنے اور محب وطن، اپنے ہی وطن میں قید رہیں گے؟
آج کچھ لوگ باہر آ رہے ہیں، شاید کوئی امید باقی ہو کہ کسی کو شعور آ رہا ہو کہ “اپنوں سے جنگ نہیں کی جاتی!” اگر لڑائی کا اتنا ہی شوق ہے تو “سیاچن پر جاؤ، بارڈر پر جاؤ، دشمن کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جاؤ!” مگر نہیں! یہ کھیل تو پرانا ہے— “کچھ دن لڑنا ہے، پھر اسلام آباد فتح کرنا ہے!”
یہی میں آئی ایس پی آر کے چودھری صاحب سے بھی کہنا چاہوں گا—
“چوہدری صاحب، چوہدریوں والی بات کریں! اپنی قوم کو اپنا دشمن نہ سمجھیں، ہم وہی ہیں جو آپ کے لیے میدان میں کھڑے رہے، ہم وہی ہیں جو آپ کے دشمنوں کے خلاف ڈٹ کر بولے، مگر جب اپنے ہی لوگ سروں کو فٹبال بنا لیں، جب اپنی ہی قوم کو روند دیا جائے، تو پھر ہم چپ نہیں رہ سکتے!”
ہم خارجی نہیں، ہم انتشاری نہیں! بلکہ وہ لوگ انتشاری ہیں جو “8 فروری کے الیکشن کو نہیں مانتے!” یہ ملک ہمارا بھی ہے، اور اس کی حفاظت کے لیے، اس کی بقا کے لیے، اور اس کے مستقبل کے لیے، ہمیں اپنی آواز بلند کرنی ہوگی۔
میں لکھوں گا، اور لکھتا رہوں گا! نہ کسی سے خوف، نہ کسی کی مصلحت، بس وہی کہوں گا جو ضمیر کی عدالت میں سچ ثابت ہو! کیونکہ قلم کا فرض فقط لکھنا نہیں، روشنی کو زندہ رکھنا بھی ہے!

اپنا تبصرہ لکھیں