مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ پاکستان میں اصل محبِ وطن کون ہے اور غدار کون؟ میں ستر برس کا ہونے کو ہوں، پچاس سال سے سیاست کے نشیب و فراز کو قریب سے دیکھ رہا ہوں، حکمرانوں کی چالاکیاں، سیاستدانوں کی مکّاریاں اور اسٹیبلشمنٹ کی حکمتِ عملی سب دیکھ چکا ہوں۔ میں نے ملک کے ٹوٹنے کی کہانی سنی بھی اور تاریخ میں دیکھی بھی، مگر آج تک نہیں سمجھ پایا کہ کون پاکستان کے لیے کھڑا ہے اور کون اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔
جب کاکڑ صاحب نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا تو مجھے بھی پریزیڈنٹ آف پاکستان کی جانب سے تقریب میں مدعو کیا گیا۔ میں وہاں موجود تھا، میں نے ایک شخص کو ہر طاقتور شخصیت کے ساتھ کھڑے، ہر اہم آدمی سے مصافحہ کرتے، انتظامات سنبھالتے دیکھا۔ اس کا رویہ ایسا تھا جیسے وہ میزبان ہو، جیسے سب کچھ اسی کے کنٹرول میں ہو۔ وہ اتنی اہمیت رکھتا تھا کہ وہاں موجود بیوروکریٹس، سیاستدان، اور اسٹیبلشمنٹ کے نمایندے، سب اس کی موجودگی کو قبول کر رہے تھے۔
یہ وہی شخص تھا جس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ یہ پاکستان کے خلاف سازشیں کرتا ہے، یہ ملک توڑنا چاہتا ہے، یہ دشمنوں کا آلہ کار ہے! مگر اگر یہ اتنا بڑا خطرہ ہے، تو پھر وہ وہاں کیا کر رہا تھا؟ اسٹیبلشمنٹ، جو پاکستان کی حفاظت کے لیے ہمیشہ مستعد رہی ہے، وہ اسے آزاد کیوں چھوڑے ہوئے ہے؟ اگر واقعی وہ خطرناک ہے تو اس کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟
ایک طرف تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ عناصر ملک کے دشمن ہیں، دوسری طرف وہی لوگ طاقت کے ایوانوں میں آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں۔ وہ صحافی جو دن رات ریاستی اداروں پر تنقید کرتے ہیں، وہ دانشور جو پاکستان کے وجود کو چیلنج کرتے ہیں، وہ آج بھی سرگرم کیوں ہیں؟ اگر واقعی وہ خطرہ ہیں، تو ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ اور اگر وہ بے قصور ہیں، تو پھر ان کے خلاف پروپیگنڈا کیوں کیا جاتا ہے؟
محسن داوڑ، منظور پشتین، ماہ رنگ بلوچ، اور عائشہ گلا لئی جیسے لوگ کون سا ہائیڈروجن بم بنانے کی ٹیکنالوجی دریافت کر چکے ہیں کہ انہیں نوبل انعام کا حقدار سمجھا جائے؟ ان کی تقاریر، ان کی ڈائریاں، ان کے نظریات کھل کر پاکستان کے خلاف ہیں، مگر ان پر کوئی قدغن نہیں لگتی۔ ان کے الفاظ میں کشمیر اور غزہ کے مظلوم عوام کے لیے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی، مگر پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کے لیے ان کے قلم ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔
اگر واقعی وہ ملک دشمن ہیں، تو ان پر وہی سختی کیوں نہیں کی جاتی جو 9 مئی کے نوجوانوں پر کی گئی؟ ان میں سے کتنے ہی نوجوانوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، کتنے ہی لاپتہ ہو چکے ہیں، کتنے ہی والدین اپنے بچوں کی بازیابی کے لیے دربدر پھر رہے ہیں۔ کیا یہی انصاف ہے؟ جاوید چوہدری خود کہہ چکا ہے کہ ڈی چوک میں تحریک انصاف کے کارکنوں کو سنائپرز کے ذریعے نشانہ بنایا گیا، وہ کون لوگ تھے جو بلند عمارتوں سے فائرنگ کر رہے تھے؟ اگر وہ واقعی فسادی تھے تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟
اگر عمران خان کو انتشاری ٹولے کا سربراہ کہا جا سکتا ہے تو پھر پاکستان کے کروڑوں عوام بھی اسی ٹولے کا حصہ ہوئے۔ اتنا بڑا جھوٹ کیسے بولا جا سکتا ہے؟ اگر کسی کو محض ایک احتجاج کے جرم میں قید کیا جا سکتا ہے، اگر کسی سیاسی مخالف کو محض اپنی رائے کے اظہار پر غدار قرار دیا جا سکتا ہے، تو پھر ان لوگوں پر بھی وہی اصول کیوں لاگو نہیں ہوتے جو پاکستان کے وجود کے خلاف ہیں؟
اگر منظور پشتین اور ماہ رنگ بلوچ واقعی پاکستان کے مخالف ہیں تو پھر وہ آزاد کیوں گھوم رہے ہیں؟ اگر وہ ریاست کے خلاف ہیں، تو ان پر قانونی کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ اگر وہ ملک کے لیے خطرہ ہیں، تو ان پر وہی سختی کیوں نہیں ہوتی جو دیگر لوگوں پر کی جاتی ہے؟ اگر کوئی تحریک انصاف کا کارکن احتجاج کرے تو وہ فسادی؟ اگر کوئی سیاسی کارکن سوال اٹھائے تو وہ ملک دشمن؟ مگر جو کھلم کھلا ریاستی پالیسیوں پر حملہ کریں، وہ آزاد کیوں رہتے ہیں؟
مجھے جواب چاہیے! میری دماغ کی رگیں پھٹ رہی ہیں! کیا کوئی ہے جو مجھے یہ سمجھائے کہ کس کا خون حلال ہے اور کس کا حرام؟ کیا کوئی ہے جو مجھے یہ بتائے کہ جعفر ایکسپریس کے مسافروں کا بدلہ بے گناہ لوگوں سے کیوں لیا گیا؟ کیا کوئی ہے جو مجھے یہ بتائے کہ اس ملک میں کچھ مخصوص لوگوں کے لیے قوانین مختلف کیوں ہیں؟ اگر اکبر بگٹی کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے، اگر زلشاء کو قتل کیا جا سکتا ہے، اگر تحریک انصاف کے کارکنوں پر گولیاں چلائی جا سکتی ہیں، تو پھر کچھ مخصوص لوگوں کو استثنیٰ کیوں حاصل ہے؟
یہ سوال ہمیشہ زندہ رہیں گے! یہ سوال ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن میں گردش کرتے رہیں گے! یہ سوال تاریخ کا حصہ بن جائیں گے اور ایک دن ایسا آئے گا جب ان سوالات کے جوابات دینا لازم ہو جائے گا۔ اگر پاکستان میں سوال اٹھانا جرم ہے، اگر انصاف مانگنا بغاوت ہے، اگر سچ بولنا غداری ہے، تو پھر ہر باضمیر شہری کو خاموش کر دو! لیکن یاد رکھو، یہ سوال ہمیشہ رہیں گے، یہ سوال تمہارا پیچھا کرتے رہیں گے، اور ایک دن، یہ سوال تمہیں عدالت میں کھڑا کر دیں گے، جہاں فیصلہ تاریخ کرے گی
