پاکستان کی تاریخ میں کئی ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے اس ملک کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ انہیں فراموش کر دیا گیا۔ ان میں سے ایک اہم ترین شخصیت چوہدری رحمت علی کی ہے، جنہوں نے نہ صرف پاکستان کا نام دیا بلکہ دو قومی نظریہ کو واضح طور پر پیش کیا۔ ان کی فکری کاوشوں کے بغیر شاید پاکستان کا قیام ممکن نہ ہوتا، مگر افسوس کہ ہم نے انہیں وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ مستحق تھے۔ حتیٰ کہ ان کا جسدِ خاکی بھی پاکستان نہ لایا جا سکا، حالانکہ کئی وعدے کیے گئے اور بارہا عوامی سطح پر اس کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
چوہدری رحمت علی اور دو قومی نظریہ
چوہدری رحمت علی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا تصور پیش کیا۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ مسلمان اور ہندو دو جداگانہ قومیں ہیں، جن کا مذہب، ثقافت، طرزِ زندگی اور تاریخی پسِ منظر بالکل مختلف ہے۔ یہی وہ بنیاد تھی جس پر پاکستان کا قیام ممکن ہوا۔ افسوس کہ آج ہم اسی دو قومی نظریے کو فراموش کرتے جا رہے ہیں، اور اپنی قومی بنیاد کو کمزور کر رہے ہیں۔
ایک نشست میں قومیت اور برادریوں کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی، جہاں میں نے واضح کیا کہ اسلام میں قومیت کا معیار برادری یا نسل نہیں، بلکہ تقویٰ ہے۔ جو شخص اللہ کے نزدیک زیادہ متقی ہے، وہی افضل ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی برادری سے ہو۔ مگر بدقسمتی سے آج بھی ہماری سوسائٹی میں ذات پات اور برادری کو بنیاد بنا کر تفریق کی جاتی ہے، جبکہ دو قومی نظریہ ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ برتری کا واحد معیار دین اور تقویٰ ہونا چاہیے۔
چوہدری رحمت علی کا جسد خاکی پاکستان کیوں نہ لایا جا سکا؟
یہ سوال بارہا اٹھایا گیا کہ چوہدری رحمت علی، جنہوں نے پاکستان کے قیام کی فکری بنیاد رکھی، ان کا جسد خاکی پاکستان کیوں نہ لایا جا سکا؟ عمران خان نے ایک جلسے میں وعدہ کیا تھا کہ ہم تین مہینے میں چوہدری رحمت علی کے جسد خاکی کو پاکستان لائیں گے، مگر تین مہینے تو دور، تین سال بھی گزر گئے، لیکن یہ وعدہ پورا نہ ہو سکا۔ میں نے خود کئی بار اسد عمر سے اس بارے میں بات کی، مگر وہ کوئی واضح جواب نہ دے سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ “کچھ خاص وجوہات” ہیں جن کی بنا پر یہ ممکن نہیں، مگر وہ وجوہات کیا تھیں، یہ آج تک ایک راز ہی رہا۔
کیا واقعی پاکستان میں دو گز زمین نہ تھی کہ چوہدری رحمت علی کو یہاں دفن کیا جا سکتا؟ یا پھر کسی کو یہ خوف تھا کہ ایک مردہ شخص بھی یہاں آ کر کسی کی “حکومت” کے لیے خطرہ بن سکتا تھا؟
L
مجید نظامی اور روزِ محشر کا سوال
یہاں ایک اور اہم واقعہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ نوائے وقت کے مدیر مجید نظامی چوہدری رحمت علی کے سخت مخالف تھے۔ ان کا موقف تھا کہ چوہدری رحمت علی پاکستان آنے کے اہل نہیں تھے، اس لیے ان کا جسد خاکی پاکستان نہ لایا جائے۔ میں نے ایک بار ان سے پوچھا کہ “کیا ایک مردہ چوہدری رحمت علی نوائے وقت کے دفتر پر قبضہ کر لے گا؟” مگر وہ مجھے قائل نہ کر سکے۔
اب جب کہ مجید نظامی بھی دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، میں تصور کرتا ہوں کہ روزِ محشر چوہدری رحمت علی اللہ کے حضور کھڑے ہو کر ان سے سوال کریں گے:
“مجید نظامی صاحب! آپ کو کیا تکلیف تھی کہ میری قبر پاکستان میں بن جاتی؟ اب آپ بھی یہاں ہیں اور میں بھی، مگر کیا آپ اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ میری تدفین کو پاکستان میں ہونے سے کیوں روکا گیا؟”
اصل میں پاکستان کی صحافتی تاریخ میں سب سے بڑا حوالہ امیر نظامی تھے، مجید نظامی نہیں۔ حمید نظامی تو مجھے لیڈر مان گئے تھے، اور یہ بات مجیب الرحمان شامی اور الطاف حسن قریشی نے بھی مجھ سے کہی تھی کہ جا کر مجید نظامی سے یہ سوال پوچھو۔ مگر پتہ نہیں انہیں چوہدری رحمت علی سے کیا چڑ تھی؟ انسان جب زندہ ہوتا ہے تو اپنی ضد نبھاتا ہے، مگر جب قبر میں اتر جاتا ہے تو اللہ سے معافی مانگتا ہے۔
عمران خان اور دو قومی نظریہ
عمران خان کی سیاست ہمیشہ نظریاتی بنیادوں پر رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا مطلب “لا الہ الا اللہ” ہے، اور یہی وہ نعرہ ہے جو بہادری سکھاتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان کی پارٹی کے تمام رہنما دو قومی نظریے کو سمجھتے ہیں؟ خود عمران خان نے پارٹی اجلاس میں شکوہ کیا کہ 26 سال بعد بھی ان کی پارٹی کے لوگ ان کے نظریے سے واقف نہیں۔
ہم نے پاکستان کو کیا دیا؟
اصل سوال یہ ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم پاکستان کو کیا دیا؟ کیا ہم نے ان لوگوں کی قدر کی جنہوں نے اس ملک کی بنیاد رکھی؟ اگر نہیں، تو پھر ہم کس بنیاد پر امید رکھتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کرے گا؟
چوہدری رحمت علی کو پاکستان میں دفن نہ ہونے دیا جانا ایک تاریخی المیہ ہے، مگر اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ان کے نظریے کو بھی دفن کر دیا۔ ہمیں اپنی کوتاہیوں کو پہچاننا ہوگا اور اپنے محسنوں کو وہ مقام دینا ہوگا جس کے وہ حقدار ہیں۔
فلاحِ گجراں کی تقریب اور گجر برادری کا کردار
میں فلاحِ گجراں کی تنظیم کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں مجھے اپنی تقریب میں بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا۔ میں خاص طور پر چوہدری اسلم گجر، ارشد فاروق گجر، واجد امتیاز گجر، عبدالرحمان گجر، باؤ رفیق گجر، چوہدری عابد، جبران وکی گجر، رمضان بلا گجر، حاجی اقبال گجر، فیصل مشتاق گجر، عمر فاروق گجر، ڈاکٹر عبد الرحمن قمر، باؤ اشرف گجر، عادل گجر، عثمان گجر، صفدر گجر اور دیگر تمام ساتھیوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس تقریب میں شرکت کی اور برادری کے اتحاد کے لیے روشن خیالات کا اظہار کیا۔
میں نے تقریب میں یہی بات کہی کہ گجر وہی ہے جو گرے ہوئے طبقے کو اوپر اٹھائے۔ میں نے چوہدری اختر بریو کی مثال دی، جو گجر برادری سے تھے، مگر انہوں نے اپنی زندگی غریبوں کی مدد کے لیے وقف کر دی، اور آج ان کی نسلیں وزارتوں تک پہنچ چکی ہیں۔ اصل قیادت وہی ہے جو عوام کی خدمت کرے، اور مجھے یقین ہے کہ گجر برادری کے یہ افراد اپنے شہر کو ایک اور ہسپتال دیں گے تاکہ عوام کو مزید سہولتیں میسر آ سکیں۔
اللہ ہمیں بصیرت دے کہ ہم اپنی کوتاہیوں کو پہچانیں اور اپنے محسنوں کو وہ مقام دیں جس کے وہ حقدار ہیں۔ آمین!
