بلوچستان، بغاوت اور قومی مفاد: حقیقت کیا ہے؟ باعثِ افتخار
انجنیئر افتخار چودھری
پاکستان کی تاریخ میں بلوچستان کا مسئلہ ہمیشہ ایک پیچیدہ اور حساس معاملہ رہا ہے۔ بغاوت، بدامنی اور بیرونی مداخلت کا یہ سلسلہ نیا نہیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی جاری ہے۔ کبھی علیحدگی پسند تحریکوں کے ذریعے، کبھی دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے اور کبھی براہ راست دشمن ممالک کی سازشوں کے تحت، بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ کہنا کہ بلوچستان میں صرف حقوق کی جنگ لڑی جا رہی ہے، حقیقت سے انحراف ہوگا۔ یہاں صرف حقوق کی بات نہیں بلکہ پاکستان کے وجود کو چیلنج کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے، اسے ہمیشہ سختی سے کچلا گیا ہے۔ بھٹو دور میں بھی ایسا ہوا، جب پہاڑوں میں فرار ہونے والے علیحدگی پسندوں کو طاقت سے روکا گیا، کیونکہ اگر انہیں چھوڑ دیا جاتا تو پاکستان اسی وقت ٹوٹنے کے دہانے پر پہنچ جاتا۔ آج بھی صورتحال مختلف نہیں۔ اگر علیحدگی پسندوں کو سختی سے نہ روکا گیا تو یہ زخم ناسور بن سکتا ہے۔
پاکستان دشمن قوتیں، خاص طور پر بھارت، افغانستان اور کچھ مغربی ممالک، بلوچستان میں بدامنی کو ہوا دے رہے ہیں۔ کل بھوشن یادیو جیسے بھارتی جاسوس اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت وہاں دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ افغانستان میں موجود بھارتی قونصل خانے بلوچستان میں بغاوت کو منظم کر رہے ہیں۔ اس پر حیرانی کیسی؟ یہ سب ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔
مجھے یاد ہے، بھارتی اینالسٹ میجر گورو آریہ سے میری ایک گفتگو ہوئی، اس نے مجھے دھمکی دی کہ “تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ گولی کہاں سے آئے گی، سامنے سے یا پیچھے سے۔” میں نے اسے جواب دیا کہ “اگر دشمن ہو تو کم از کم بزدلی نہ دکھاؤ، سامنے سے مقابلہ کرو۔” یہ بھارتی ذہنیت ہے، جو چھپ کر وار کرنے کی عادی ہے۔ وہ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ بلوچستان کے ہر شخص کا ایڈریس اور تفصیلات بھارت کے پاس موجود ہیں۔ یہ ایک سنگین اعتراف ہے، جو ثابت کرتا ہے کہ بھارت وہاں کی دہشت گرد تنظیموں کو منظم کر رہا ہے۔
بلوچستان کے معاملے میں سب سے بڑا تضاد خود ریاست پاکستان کے اندر نظر آتا ہے۔ ایک طرف علیحدگی پسندوں سے نرمی برتنے کی بات ہوتی ہے، دوسری طرف ملک کے اندر قانون کی بالادستی کے لیے کام کرنے والوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ یہ دوہرا معیار کیوں؟ جو پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، ان کے لیے بھی مقدمے، گرفتاریاں اور پابندیاں؟ اور جو پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں، ان کے لیے نرم رویہ؟ یہ کہاں کی منطق ہے؟
میں اس سلسلے میں پاکستان اسٹیبلشمنٹ کے مؤقف کا مکمل حامی ہوں کہ دشمنوں کو آہنی ہاتھوں سے کچلا جائے۔ جو لوگ پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں، ان کے لیے کسی رعایت کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن یہاں جو اپنے لوگ ہیں، جو پاکستان کے اندر رہ کر اسے بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں، ان کے ساتھ نرمی برتی جانی چاہیے۔ محبت، بھائی چارہ اور اتحاد ہی وہ طاقت ہے جس سے ہم دشمن کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ قیدی نمبر 804 (عمران خان) کو جیل سے باہر نکالا جانا چاہیے۔ اگر پاکستان کو مضبوط کرنا ہے تو تمام محب وطن قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا ہوگا۔ دشمن ہمیں اندر سے کمزور کرنا چاہتا ہے، ہمیں آپس میں لڑوا کر ٹکڑے کرنا چاہتا ہے۔ اس کا حل یہ نہیں کہ ہم خود ہی اپنے ملک کے اندر تقسیم پیدا کریں۔ ریاست کے وفاداروں کو دبانے کے بجائے، انہیں مضبوط کریں، تاکہ وہ بھی پاکستان کے دشمنوں کے خلاف کھڑے ہوں۔
آج سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا بلوچستان کا مسئلہ فوجی آپریشن سے حل ہوگا یا مذاکرات سے؟ سچ یہی ہے کہ دونوں کا امتزاج ہی حل ہے۔ جہاں بغاوت ہو، وہاں طاقت ضروری ہے، لیکن جہاں عوام ناراض ہوں، وہاں ان کے دل جیتنے کی ضرورت ہے۔ دشمن کو پہچاننا ہوگا، کیونکہ اگر دشمن کو نظر انداز کیا گیا، تو یہ ناسور مزید گہرا ہو جائے گا۔
پاکستان کو مضبوط کرنا ہے، تو انصاف اور اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ جو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے، اسے رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ لیکن جو لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں، ان کے لیے ریاست کو ماں کی طرح بننا ہوگا، نہ کہ ظالم حکمران کی طرح۔ بلوچستان صرف ایک خطہ نہیں، یہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اور اسے دشمن کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑا جا سکتا