خواب دیرینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں
چلیے، پہلے تو نہیں پوچھا تھا، اب پوچھتے ہیں
(افتخار عارف)
پاکستان کا مطلب صرف ایک ملک، ایک سرحد، یا ایک جھنڈا نہیں تھا۔ یہ ایک نظریہ تھا، ایک خواب تھا، جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے مسلمانوں نے آزادی کے یقین سے دیکھا۔ یہ خواب 1915 میں چوہدری رحمت علی کے ذہن میں جنم لیتا ہے، وہ “Now or Never” کا نعرہ لگاتے ہیں، اور “پاکستان” کا نام تاریخ کے صفحات پر روشن ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال اس خواب کو فکر، فلسفے، اور وجدان سے جِلا بخشتے ہیں، اور پھر قائداعظم محمد علی جناح اسے عملی تعبیر دیتے ہیں۔ یہ خواب لاکھوں دلوں میں دھڑکتا رہا، قربانیوں کی آگ میں جلتا رہا، اور آخرکار 14 اگست 1947 کو، ایک حقیقت بن کر ابھرا۔
لیکن کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کے لیے سب کچھ قربان کر دیا گیا؟ پاکستان کا قیام ایک سیاسی معاہدہ نہیں تھا، یہ ایک خون سے لکھی ہوئی تاریخ ہے۔ برصغیر کی سرزمین اس وقت تک کانپتی رہی جب تک مسلمان مرد، عورتیں، بچے اور بوڑھے قافلوں میں لٹتے، کٹتے، جلتے، بکھرتے، اور شہید ہوتے رہے۔ وہ تصویریں جو آنکھوں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتیں—ایک ماں اپنی بیٹی کو کنویں کے کنارے لاتی ہے، اس کا ماتھا چومتی ہے، اور پھر اپنے آنسوؤں میں ڈبونے سے پہلے بس اتنا کہتی ہے: بیٹی، تُو سکھوں کے ہاتھ نہ لگے، یہ پانی تجھے امان دے گا۔
پنجاب کے اندھے باپوں نے بیٹیوں کے چہرے کو آخری بار چھوا، بینائی کو دل میں قید کیا، اور پھر بیٹی کو اللہ کے حوالے کر دیا۔ یہ وہ قربانیاں تھیں جنہیں صرف لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا، یہ وہ لمحات تھے جنہیں صرف دل کی گہرائی میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آج بھی جب ان مناظر کا تصور کیا جائے تو دل تڑپ اٹھتا ہے، آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، اور روح تک رو پڑتی ہے۔
ایک تصویر بار بار آنکھوں میں نمی لے آتی ہے—ایک بوڑھا شخص، جوان بیٹے کے کندھوں پر سوار، قافلے میں جا رہا ہے، تھک چکا ہے، پیاسا ہے، زخموں سے چور ہے، لیکن لبوں پر بس ایک سوال ہے: بیٹے، پاکستان کتنا دور رہ گیا ہے؟ اور آج، ہم سب کے لبوں پر وہی سوال ہے۔ کیونکہ پاکستان تو بن گیا، مگر وہ خواب، وہ وعدے، وہ نظریہ… کہیں کھو گیا۔
کسی نے سچ کہا تھا کہ پاکستان تو اس وقت بن گیا تھا جب برصغیر کے پہلے ہندو یا سکھ نے اسلام قبول کیا تھا۔ اسی لمحے دو قوموں کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ یہی نظریہ دو قومی نظریے کی جڑ ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر پاکستان کا خواب کھڑا ہوا۔ لیکن آج ہم اسی بنیاد کو کھوکھلا کر چکے ہیں۔
آج کا پاکستان وہ نہیں رہا جس کے لیے لاکھوں جانوں کا نذرانہ دیا گیا۔ یہاں نہ انصاف ہے، نہ برابری، نہ اخوت، نہ ایمان۔ یہاں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں، غریب بھوکا ہے، بیمار دوا سے محروم، طالب علم علم سے دور، اور نوجوان بےروزگاری سے نڈھال۔ عدل کا ترازو جھکتا ہے، قانون بک جاتا ہے، اور ضمیر سو چکے ہیں۔
قومی زندگی صرف زمین اور اقتدار سے نہیں بنتی، بلکہ خوابوں، نظریات، اور ایثار سے بنتی ہے۔ جب قومیں اپنے خواب بھول جاتی ہیں، تو وہ مر تو نہیں جاتیں، مگر اندر سے کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔ ہماری نئی نسل کو قائداعظم کے اقوال تو زبانی یاد ہیں، لیکن دل سے ان کا مفہوم کوئی نہیں جانتا۔ ہمیں آزادی کی قیمت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم آزادی کھو بیٹھتے ہیں۔ ہم نے ماضی کی قربانیوں کو صرف کتابوں میں قید کر دیا، اور حال کو مفادات کی نذر کر دیا۔
آج جو لوگ سوال اٹھاتے ہیں، وہی سچے وارث ہیں اس خواب کے۔ وہی پوچھتے ہیں: کدھر گیا پاکستان؟ وہ خواب، وہ وعدے، وہ قربانیاں کہاں گئیں؟ ہمیں وہی پاکستان واپس چاہیے، جو اسلامی ہو، عوامی ہو، عدل و انصاف کا گہوارہ ہو۔ ہمیں وہی پاکستان واپس چاہیے، جہاں بیٹی کنویں میں نہ گرے بلکہ اسکول جائے، جہاں بوڑھا بیٹا کندھے پر نہ اٹھائے بلکہ عزت سے جئے، جہاں کوئی ماں اپنے بچوں کے لیے روٹی کے بجائے دعائیں نہ مانگے، بلکہ کھانے کے ساتھ امید بھی رکھے۔
اب وقت ہے کہ ہم صرف خوابوں کی قبریں نہ بنائیں، بلکہ ان خوابوں کو پھر سے زندہ کریں۔ ہمیں اس وطن کو وہی پہچان واپس دلانی ہے جو چودہ اگست 1947 کو ملی تھی۔ وہ پہچان جو “لا الٰہ الا اللہ” سے جڑی تھی، اور جس کے لیے لاکھوں نے اپنی جانیں نچھاور کیں۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنی قوم، اپنے نظام، اپنی عدالتوں، اپنے تعلیمی اداروں، اپنے سیاست دانوں اور خود اپنے ضمیر سے سوال کریں: یہ عورتیں بھی تو پاکستان کی تلاش میں ہیں جن کا بھائی قیدی نمبر 804 اڈیالہ جیل میں بند ہے اور پوری قوم کی آواز کو دبا دیا گیا ہے
بیٹے، پاکستان اب بھی کتنا دور ہے؟