مشترکہ اعلامیہ

کانفرنس کے اختتام پر جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں درج ذیل نکات پر زور دیا گیا:

  1. بھارتی اقدامات کی مذمت: 5 اگست 2019 کے بھارتی اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے، جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔
  2. سیاسی قیدیوں کی رہائی: تمام کشمیری سیاسی قیدیوں، بشمول یاسین ملک، آسیہ اندرابی، اور دیگر رہنماؤں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ۔
  3. بین الاقوامی مداخلت کی اپیل: اقوام متحدہ اور او آئی سی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بھارتی مظالم کا نوٹس لیں اور کشمیری عوام کو ان کا حقِ خودارادیت دلانے میں مدد کریں۔
  4. سفارتی محاذ پر سرگرمی کے حوالے سےپاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو عالمی فورمز پر مزید مؤثر انداز میں اٹھائے اور بین الاقوامی حمایت حاصل کرے۔
    اگر اس کانفرنس کی سفارشات پر صدق دل سے عمل کیا جائے تو اس کے درج ذیل دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں:
    بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ: عالمی برادری کی توجہ مسئلہ کشمیر پر مبذول ہونے سے بھارت پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ کشمیری عوام کے حقوق کا احترام کرے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلے کا حل نکالے۔
    سیاسی قیدیوں کی رہائی: بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں کشمیری رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی ممکن ہو سکتی ہے، جو خطے میں سیاسی سرگرمیوں کی بحالی میں مددگار ثابت ہوگی۔
    عالمی نگرانی اور مذمت کے باعث مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں کمی آ سکتی ہے۔سفارتی کوششوں اور مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا ایسا حل ممکن ہو سکتا ہے جو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہو۔
    آل پارٹی حریت کانفرنس کی زیر اہتمام منعقدہ یہ کل جماعتی کانفرنس مسئلہ کشمیر پر قومی یکجہتی کی مظہر رھی ہے۔ اگر اس کے اعلامیہ اور سفارشات پر مخلصانہ عمل کیا جائے تو نہ صرف کشمیری عوام کی مشکلات میں کمی آئے گی بلکہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اور استحکام کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے مؤثر کردار ادا کرے اور کشمیری عوام کو ان کا جائز حق دلانے میں مدد فراہم کرے۔
اپنا تبصرہ لکھیں