پاکستان کی وحدت، طاقت اور ترقی کا راز اس کی اکائیوں میں پنہاں ہے۔ اس دھرتی کی بنیاد عظیم قربانیوں پر رکھی گئی، جن میں ہر قوم، ہر زبان اور ہر قبیلے کا خون شامل ہے۔ بلوچستان ہو، وسیب ہو، ہزارہ ہو یا فاٹا – سب نے پاکستان بنانے میں اپنا خون، پسینہ اور جان دی ہے۔ مگر افسوس کہ آج یہی خطے محرومیوں کا شکار ہیں، جنہیں انصاف، ترقی اور شرکت کے مساوی مواقع دینے کی بجائے شک اور بداعتمادی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
بلوچستان، پاکستان کا سب سے بڑا اور معدنی لحاظ سے مالامال صوبہ، برسوں سے زخم خوردہ ہے۔ امن و امان، تعلیم، صحت، روزگار اور روابط میں کمی نے اس خطے کو محرومی کے اندھیروں میں دھکیل رکھا ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں، غیر ملکی ایجنسیاں اور انتہا پسند عناصر اس خلا سے فائدہ اٹھا کر نوجوانوں کو ورغلاتے ہیں، ریاست سے دور کرتے ہیں، اور پھر وہی نوجوان دشمن کے ایجنڈے کا ایندھن بن جاتے ہیں۔
اسی طرح اگر ہم نظر ڈالیں تو ہزارہ ڈویژن کا خطہ بھی شدید محرومی کا شکار ہے۔ ایک ایسا خطہ جس نے پاکستان کے قیام میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ یہاں کے لوگوں نے آزادی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، مگر آج ان کے ساتھ سلوک ایسا ہے جیسے وہ کسی اور ریاست سے تعلق رکھتے ہوں۔ ان کے مطالبات کو نظر انداز کیا جاتا ہے، اور صوبہ ہزارہ کا نعرہ، جو صرف انتظامی بنیاد پر حقوق کا تقاضا ہے، اسے بھی سیاست کی نذر کر دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ریاست ماں نہیں ہوتی؟ اگر ایک بیٹا “بھائی” کہہ کر الگ کمرہ مانگے تو اسے دشمن کیوں سمجھا جاتا ہے؟
ایسا ہی حال سرائیکی وسیب کا ہے جہاں لوگ کہتے ہیں “اسی قیدی آں تختِ لاہور دے۔” یہی احساسِ محرومی اگر برقرار رہا، تو کیا ہم نے مشرقی پاکستان سے سبق نہیں سیکھا؟ جہاں زبان، ثقافت اور اختیارات کے نام پر لوگوں کو الگ ہونے پر مجبور کر دیا گیا؟ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی روش بدلیں۔ نفرت کی دیواریں گرانا ہوں گی، پنجاب ازم یا “تخت لاہور” کا تصور دفن کرنا ہوگا۔ پنجاب خود بڑا بھائی ہے تو بڑے پن کا ثبوت بھی دے، اور مزید صوبوں کی تشکیل سے گریز نہ کرے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان ایک گھر ہے۔ اور اگر اس گھر میں کسی کمرے میں تنگی ہے، کسی کو روشنی کم مل رہی ہے، کسی کو پانی میسر نہیں، تو وہ ناراض ہو گا، اور یہ ناراضی دشمن کے لیے موقع بنے گی۔ بہتر یہ ہے کہ ہر بھائی کو اس کا حق دیا جائے، عزت دی جائے، اپنے حصے کی روشنی، پانی اور سکون دیا جائے۔ اگر وہ الگ کمرہ مانگے، تو اس کے لیے محبت سے دروازہ کھولا جائے نہ کہ دیوار کھینچ دی جائے۔
بلوچستان ہو، ہزارہ ہو، فاٹا ہو، سرائیکی وسیب ہو – یہ سب پاکستان ہیں۔ ان کا درد پاکستان کا درد ہے، ان کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھنا صرف ریاست کی نہیں، بلکہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی ریاستی حکمت عملی پر نظرثانی کریں اور چند بنیادی اصولوں کو اپنائیں:
* تمام اکائیوں کو مساوی حیثیت دی جائے۔ وفاق صرف اسلام آباد میں بیٹھے چند افراد کا نام نہیں۔ وفاق تب ہی مضبوط ہوتا ہے جب اس کے تمام یونٹ خوش ہوں، مطمئن ہوں اور عزت کے ساتھ جیتے ہوں۔
* نئے صوبے بنائے جائیں، مگر نفرت کے بغیر۔ پنجاب کو تقسیم کرنا کوئی جرم نہیں، بلکہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ انتظامی سہولت، نمائندگی میں بہتری اور محرومیوں کے خاتمے کے لیے نئے صوبے بنانا عقل و شعور کی علامت ہے، تنگ نظری کی نہیں۔
* وسائل اور اختیارات کی منصفانہ تقسیم ہو۔ جو علاقہ جس قدرتی خزانے سے مالامال ہے، وہ اس کا حق دار ہے کہ اسے اس کا حصہ دیا جائے۔ گیس ہو یا تیل، کوئلہ ہو یا سونا – سب سے پہلے وہاں کے لوگ اس سے مستفید ہوں۔
* سیاسی مکالمہ اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔ ہر قوم، ہر زبان، ہر خطے کو احترام دیا جائے۔ انہیں فیصلوں میں شامل کیا جائے، ان کے نمائندوں کو فیصلوں کی میز پر بٹھایا جائے۔
* تعلیم، صحت، روزگار اور روابط کا جال بچھایا جائے۔ جیسے بلوچستان کے نوجوانوں کو انٹرنیٹ، لائبریری، تعلیمی اداروں اور ترقیاتی منصوبوں کی ضرورت ہے، ویسے ہی ہزارہ، وسیب اور فاٹا کے نوجوانوں کو بھی ہے۔
* پاکستانیت کو فروغ دیا جائے، نفرت کی سیاست کو دفن کیا جائے۔ یہ ملک کسی ایک قوم، زبان یا علاقے کا نہیں – یہ سب کا ہے۔ جو اس ملک سے محبت کرتا ہے، وہی سب سے بڑا پاکستانی ہے، چاہے وہ بلوچ ہو یا پٹھان، پنجابی ہو یا ہزاروی۔
ہمیں یہ فیصلہ آج کرنا ہے کہ ہم نفرت بانٹنے والے بنیں گے یا محبت کے سفیر۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو دشمن کی پروپیگنڈہ مشینری کے رحم و کرم پر چھوڑنا ہے یا ان کے ہاتھ میں علم، قلم اور محبت دینی ہے؟ ہمیں مشرقی پاکستان کی یاد کو صرف تاریخ کی کتاب میں دفن کرنا ہے یا اس سے سبق سیکھ کر مستقبل بچانا ہے؟
بلوچستان، ہزارہ، سرائیکی وسیب اور فاٹا – یہ سب پاکستان کے پھول ہیں۔ ان کے رنگ الگ ہو سکتے ہیں، مگر خوشبو ایک ہے – پاکستانیت کی۔
اللہ کرے ہمارا یہ چمن سدا سلامت رہے،
جس کی مٹی میں وفا ہے، جس کے پانی میں محبت ہے،
جہاں ہر بیٹا، ہر بیٹی، فخر سے کہہ سکے:
“میں پاکستانی ہوں!”
