پاکستان کے ہسپتالوں کورونا وائرس کی اموات میں اضافے اور نئے مریضوں میں تیزی کے بعد پاکستان کا نظام صحت کمزور پڑنے لگا ہے۔پاکستان میں پہلے ہی کورونا کے مرکز سمجھے جانے والے ملک چین سے زیادہ کیسز ہوچکے ہیں مگراس باوجود حکومتی عہدیداروں کا دعویٰ ہے کہ حالات قابو میں ہیں۔لیکن دوسری جانب نظام صحت سے وابستہ افراد مانتے ہیں کہ صحت کا شعبہ کورونا وائرس کے سونامی کو روکنے میں کمزور پڑ چکا ہے۔پاکستان کے بڑی آبادی والے 2 شہر کراچی اور لاہور کے ہسپتال مریضوں سے تقریبا بھر چکے ہیں اور وہاں کے ہسپتال مزید انتظامات کرنے میں کوشاں ہیں۔دونوں شہروں کے بعض بڑے ہسپتالوں نے جگہ کی کمی کے باعث مریضوں کو داخل کرنے سے ہی معذرت کرلی ہے کہ زیادہ تر ہسپتالوں کے بستر مریضوں سے بھر چکے ہیں اور خاص طور پر بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں بستروں کی کمی نے ہماری کورونا سے نمٹنے کی صلاحیتوں کو محدود کردیا ہےملک کے سب سے بڑے شہر اور صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں جو کہ ڈیڑھ کروڑ افراد کا مسکن ہے اور کورونا میں پاکستان کا مرکز ہے، وہاں 15 سرکاری و نجی ہسپتال کورونا کے مریضوں کے لیے مختص ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہسپتالوں میں صرف 136 وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں۔پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد کے مطابق صوبائی دارالحکومت لاہور میں مجموعی طور پر کورونا کے مریضوں کے لیے 539 بستر اور 200 وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں۔صوبہ سندھ اور پنجاب میں مجموعی طور پر 70 ہزار سے زائد کورونا کے مریض ہیں اور دونوں صوبوں میں مجموعی طور پر ہر طرح کے ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کے لیے 14 ہزار بستر مختص ہیں۔ ملک میں کورونا متاثرین کی تعداد 95 ہزار سے تجاوز کرگئی یومیہ ان سے درجنوں کورونا کے مریض ہسپتال میں داخلے کے لیے رابطہ کرتے ہیں مگر ان کی مدد کرنے سے قاصر ہیں، کیوں کہ ہسپتالوں میں جنرل سمیت انتہائی نگہداشت کے وارڈ (آئی سی یو) سمیت ہر جگہ بسترے بھرے ہوئے ہیں اگر ملک میں کیسز کی رفتاری یوں ہی بڑھتی رہی تو ملک کے ہسپتال صورتحال نہیں سنبھال سکیں گے۔ کیسز بڑھنے کی وجہ سے بعض اوقات ان کے ایمرجنسی وارڈ میں مریضوں کی جگہ نہیں ہوتی اور اس صورتحال میں وہ عوام کو حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیں گے پاکستان کے زیادہ تر ڈاکٹرز جو کہ لاک ڈاؤن نرم کرنے کے مخالف بھی تھے، ان کا خیال ہے کہ ملک کی صورتحال مزید خرابی ہونے والی ہے۔ ملک میں کیسز کی بڑھتی حالیہ تعداد کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ جون اور جولائی میں معاملات زیادہ سنگین ہوں گے۔انہوں نے بھی خدشہ ظاہر کیا کہ ملک میں بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے نظام صحت مفلوج بن سکتا ہے، ان کے مطابق دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ نظام صحت کوغیرتربیت یافتہ طبی عملے کی قلت بھی معاملے کو سنگین بنا سکتی ہے۔ان کے مطابق ملک میں اس وقت 2200 ڈاکٹرز، طبی عملے کے ارکان اور تکنیکی رضاکار کورونا میں مبتلا ہونے کے بعد قرنطینہ ہوچکے ہیں اور ہسپتالوں کے معاملات بہت ہی اچھا تجربہ نہ رکھنے والے ینگ ڈاکٹرز نے سنبھال رکھے ہیں حکومت نے حال ہی میں ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی دستیابی کے لیے ایپلی کیشن متعارف بھی کرائی ہے۔ صورتحال کو دیکھتے ہوئے وینٹی لیٹرز کو بھی بڑھایا جا رہا ہے۔ اس وقت صرف لاہور میں کورونا کے مریضوں کے لیے 200 وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں جب کہ 30 جون تک ان میں مزید 100 وینٹی لیٹرز کا اضافہ کردیا جائے گا۔ موجودہ حالات میں موبائل یونٹ یا ہسپتال اچھا فائدہ دے سکتے ہیں، کیوں کہ اس وقت ہسپتالوں میں جگہ کی کمی کا سامنا ہے۔ مریضوں کے علاج کے لیے دوسرا راستہ ان کے گھروں میں علاج کی سہولت فراہم کرنا ہے۔
