ایک عہد تمام ہوا

ایک عہد تمام ہوا سینئر صحافی اور بے شمار قومی رازوں کے امین سید سعود ساحر اسلام آباد میں انتقال کر گئے نماز جنازہ ڈی ایچ اے جامع نور میں ہوئی اور مرحوم کو ڈی ایچ اے کے قبرستان میں سپر خاک کردیا گیا‘ سید سعود ساحر طویل عرصے سے علیل تھے‘ مرحوم بے لاگ‘ جرائت مند اور انتہائی محنتی شخص تھے‘ ساری عمر صحافت کے دشت بے اماں میں گزاری‘ کالج اور یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ نہیں تھے مگر سیاسی اور صحافتی تاریخ پر ان کی بلا کی نظر تھی‘ اور پیشہ وارانہ ریاضت کی اعلی مثال قائم کی اپنے کردار کو بے داغ رکھا اور پاکستان کے نظریاتی مورچے استقامت کے ساتھ پر ڈٹے رہے‘ وہ حکیم محمود سرو سہانپوری مرحوم کے بھائی تھے‘ مرحوم نے اہلیہ‘ صاحب ذادے کرنل(ر) احمد سعود، سینئر صحافی عمر فاروق اور صاحبزادی کو سوگوار چھوڑا ہے نماز جنازہ میں مسلم لیگ(ن) کے چیئرمین‘ موئتمر عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل راجا محمد ظفر الحق‘ مسلم لیگ(ض) کے سربراہ محمد اعجاز الحق‘ چیئرمین پیمرا سلیم بیگ‘ سابق وفاقی مشیر عرفان صدیقی‘سابق سیکرٹری انفرامیشن سید انور محمود‘ سابق پریس اتاشی رائے ریاض حسین کے علاوہ‘ نیشنل لیبر فیڈریشن کے شمس الرحمن سواتی‘ ملک اعظم‘ پروفیسر سجاد قمر‘ ابن رضوی‘ لطیف شاہ‘ عبداللہ حمید گل‘ راؤ اختر‘ سجاد سرور‘معروف اخبار نویس مجیب الرحمن شامی‘ کالم نگار اور صحافیوں میں روؤف طاہر‘ خواجہ فرخ سعید‘ فاروق عادل‘ الیاس شاہد‘ طاہر خان‘ رانا غلام قادر‘ مغیث اشرف بیگ‘ سرمد سالک‘ فاروق فیصل خان‘ شکیل ترابی‘ عامر الیاس رانا‘ نواز رضا‘ طارق سمیر‘ خاور نواز راجا‘ شکیل انجم‘ جاوید شہزاد‘ قیوم فاروقی‘ علی شیر‘ خالد قیوم‘ خلیق کیانی اور دیگر شامل تھے سعود ساحر نے اپنی صحافتی زندگی کاآغاز 22 فروری1958 میں کیا‘ وہ روزنامہ تعمیر‘ کوہستان‘ نوائے وقت‘ جسارت‘ امت‘ تکبیر سے وابستہ رہے وہ1951 میں اپنے لڑکپن میں بھارت کے شہر سہارن پور سے ہجرت کر کے پاکستان پہنچے تھیانھوں نے اپنی تمام عمر اپنے نئے وطن کی خدمت میں گزاری ایام نوجوانی میں وہ کچھ عرصہ تک بائیں بازو سے بھی وابستہ رہے مولانا مودودی کی فکر سے بعد ازاں متاثر ہو گئے سعود ساحر نے پاکستان کے کئی اخبارات میں طویل عرصے تک خدمات انجام دیں وہ قومی تاریخ کے کئی اہم واقعات عینی شاہد کی حیثیت تھے سید سعود ساحر نے خبر کے حصول کے لیے کئی بار اپنی جان تک خطرے میں ڈال دی 1979میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا کا معاملہ انتہائی خفیہ تھا لیکن شاہ صاحب واحد صحافی تھے جنھیں پھانسی کا دن اور وقت معلوم ہو چکا تھاذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے کچھ دیر قبل وہ راول پنڈی جیل کے باہر پہنچ چکے تھے، سعود ساحر کو وہاں سے حراست میں لے لیا گیاتھا‘سید سعود ساحر ان چند سینئر صحافیوں میں تھے جنہوں نے ہمیشہ پی آراے میں نئے آنے والے صحافیوں کی رہنمائی کی۔ وہ جب پارلیمنٹ آتے تھے توسیاست اور صحافت کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا‘سابق مشیر وزیراعظم عرفان صدیقی نے ممتاز صحافی، دانشور اور شاعر سید سعود ساحر کے انتقال پر گہرے رنج وغم اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ مرحوم کے صاحزادوں کرنل احمد سعود اورسینئر صحافی عمر فاروق کے نام اپنے تعزیتی پیغام میں انہوں نے کہاکہ سعود ساحر کے انتقال کی خبر سن کر دلی رنج ہوا۔ وہ ایک درویش مزاج، کھرے، بے لاگ اور انتہائی محنتی شخص تھے۔ ساری عمر صحافت کے دشت بے اماں میں گزاری اور پیشہ وارانہ ریاضت کی اعلی مثال قائم کی۔ اپنے کردار کو بے داغ رکھا۔ عرفان صدیقی نے کہاکہ سید سعود ساحر پاکستان کے نظریاتی مورچے پر ڈٹے رہے۔ مجھے ان کی رفاقت میں کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ 2014 میں جب مجھے قومی ایوارڈ کمیٹی کی سربراہی کا موقع ملا تو میرے ذہن میں پہلا نام سعود ساحر کا آیا۔ عرفان صدیقی نے کہاکہ یہ بات شاید رسمی سی ہو لیکن میں حقیقی معنوں میں سمجھتا ہوں کہ سعود ساحر کا خلا مشکل سے پُر ہوگا۔ اللہ تعالی انہیں جواررحمت میں جگہ دے اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے

اپنا تبصرہ لکھیں