اصول تو یہی ہے کہ کبھی ذاتی دکھ بیان نہیں کیے جاتے‘ اسی لیے بے شمار مرتبہ یہ بات دیکھی اور سنی گئی کہ فن کار اور اسٹیج اداکار تو اپنے پیاروں کا جنازہ پڑھ کر اسی روز شام کو پھر اسٹیج پر آن موجود ہوتے ہیں‘ کیسی تلخ زندگی ہے‘ آگ اشیاء کو کیسے بھسم کر ڈالتی ہے یہ کوئی جلی ہوئی لکڑی سے پوچھے‘ ابھی گھر کی دہلیز پر پاؤں رکھا ہی تھا کہ ظفر بھائی کی ٹیلی فون کال آئی‘ فون کی سکرین پر ظفر کانام دیکھ کر پہلا جملہ یہی نکلا کہ اللہ خیر کرے‘ کال اٹینڈ کی اور پوچھا خیر تو ہے ناں‘ کہنے لگے باجی رضیہ انتقال کرگئی ہیں‘ اف‘ خدایا‘ ظفر کی بات سن کر ماضی میں کھو گیا‘ مرحومہ بہت بہادرخاتون تھیں‘ شوہر کے انتقال کے بعد کمال عزت کے ساتھ بچوں کی تعلیم مکمل کرائی‘ اور شادیاں کیں‘ اللہ نے انہیں صبر اور شکر کا بہترین صلہ دیا کہ احترام دینے والی بہووئیں اور داماد دیے‘ مرحومہ مجھ سے چند سال ہی بڑی تھیں مگر ہم تمام کزن‘ آپس میں اس قدر بے تکلف ہیں کہ باہمی رکھ رکھاؤ کی ایک معراج‘ شاید ہی ایسا کسی اور خاندان میں ہوگا جس کی تیسری نسل میں اس طرح کا بے نظیر اتفاق ہوگا‘ رضیہ سات بہنوں میں سب سے ذیادہ خاموش طبع‘ ذہین‘بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت کرنے والی خاتون‘ اللہ کا یہ ہم پر احسان ہے کہ ایک دوسرے کو عزت دینے والی یہ خوبی ہم سب کزنوں میں ہے‘ ہمارے خاندان میں متعدد افراد ایسے ہیں جو دیکھتے دیکھتے ہی ہم سے جدا ہوگئے“ رضیہ بہن بھی ایسے تیزی سے آگے بڑھی جیسے سفر کے دوران سایے پلک جھبکتے ہی پیچھے جارہے ہوتے ہیں اور منظر غائب ہورہے ہوتے ہیں‘ شیخوپورہ ریلوے اسٹیشن کے قریب قبرستان میں اس وقت ہمارے خاندان کے مرحومین کی بیس قبریں ہیں‘ یااللہ خیر‘ ہمارے جو عزیز حیات ہیں انہیں طویل زندگی اور تن درستی عطاء کر اور جو انتقال کرگئے ہیں‘ انہیں نبی دو جہاں ﷺ کی شفاعت نصیب فرما اور ان کی مغفرت فرما‘آمین‘ خالد بھائی کے ساتھ اسلام آباد سے شیخوپورہ آتے ہوئے گاڑی کے شیشے سے باہر تیزی سے منظر تبدیل ہوتے دیکھتا رہاگاڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور سب کچھ پیچھے رہ کر دور ہوتے ہوتے نگاہوں سے اوجھل ہوتے رہے اور پھر نیا منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے دو چار بار آنکھ بھی لگی مگر ذہن یادوں میں ہی الجھا رہا۔۔۔اور یوں ہی چلتے چلتے شیخو پورہ پہنچ گئے بہرحال‘ زندگی ایک عارضی نعمت ہے وہیں سب نے جانا جہاں اللہ نے سب کو اکٹھا کرنا ہے‘ وہیں سب کا حساب ہوگا‘ وہیں ہمارے اعمال اور ہماری نیتیوں کے بھی میزان سجائے جائیں گے‘ ہوسکتا ہے دنیا میں کوئی ہماری کسی بات سے ناراض ہو‘ اور کوئی خوش‘ لیکن کوئی انسان کسی دوسرے انسان کے دل میں گھس کر نہیں جھانک سکتا کہ دلوں کے راز تو اللہ ہی جانتا ہے‘ آج کل نفسا نفسی ہے‘ پیسے کی ریل پیل نے بھی رشتوں میں فرق ڈال دیا ہے جب آندھی چلتی ہے تو کوئی گھر ایسا نہیں ہوتا جہاں گردو غبار نہ پہنچتا ہو‘ لیکن اللہ کا شکرہے ہمارے خاندان پر‘ ہمارے دل بھی صاف ہیں اور ذہن بھی‘ بڑی گاڑیاں‘ پنج ستارہ اورسات ستارہ ہوٹل کی چمک دمک سے کوئی متاثر نہیں ہوا ملاقاتوں میں تسلسل رہے یا کوئی لمبا وقفہ آجائے‘ باہمی عزت او حترام کا تعلق قائم رہتا ہے چنس سالوں سے کچھ ایسی کیفیت رہی کہہم کزنوں میں ملاقاتوں میں فاصلہ آنے لگا اکثر ہونے والی ملاقاتیں اور رات گئے تک گپ شپ ملکی حالات سیاست سے لے کر لطیفوں قہقہوں والی خوبصورت نشستیں مہینوں اور پھر سالوں میں بدلنے لگیں۔ باوجود اسکے کہ ہم ملتے نہیں تھے لیکن ماضی کی یادیں تازہ رہتی تھیں آج دنیا داری کی مصروفیت نے ہمیں کیا کسی کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا
بقول منیر نیازی
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
لیکن اس بار شیخو پورہ گیا تو آخری دیدار کرنے کیلئے۔۔۔ میں نے اپنی محبت کرنے والی کزن کو کھو دیا ہے وہ شیخوپورہ قبرستان میں مدفون ہمارے عزیزوں کی طرح ایک نیک روحانیت۔۔۔۔۔متانت اور سنجیدگی سے بھرپور ُپروقار شخصیت کی مالک تھیں۔۔اللہ کریم ان کی مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائیں بابا بھلے شاہ کہتے ہیں کہ گل سن چھلیا موت دا سن کر نہ روڑ اکھیاں وچوں پانی
ٹرگئے نبی محمدﷺ من تقدیر بنائی
الوداع میری بہن
لے او یار حوالے رب دے میلے چار دِناں دے
اُس دِن عید مبارک ہوسی جِس دِن فیر مِلاں گے
لے او یار حوالے رب دے لمبی پئی اے جُدائی
رب مِلایا آن مِلاں گے ہور امُید نہ کائی
باپ مرے تے سر ننگا ہوئے
تے ویرمرن کنڈ خالی
ماواں بعد محمد بخشا کون کرے رکھوالی
(حضرت میاں محمد بخشؒ)
