ایم۔طفیل “پا طفیل” ایک درویش منش صحافی کی رحلت

عابد حسین قریشی

چند روز قبل رمضان المبارک کے اسی آخری عشرہ میں بزرگ اور سینئر صحافی ایم۔طفیل جنہیں صحافتی

حلقوں میں “پا طفیل” کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا تھا، وہ اس دُنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ خدا اُنکو غریقِ رحمت کرے۔ ایم طفیل کا تعلق ہمارے آبائی قصبہ چٹی شیخاں سیالکوٹ سے تھا۔ مگر گذشتہ تقریباً 50 سال سے وہ لاہور میں ہی مستقلاً آباد ہو چکے تھے۔ مگر اپنے آبائی علاقہ سے اُنہوں نے تعلق و ربط منقطع نہیں ہونے دیا۔ چٹی شیخاں میں اُنکے دوست احباب اُنہیں خواجہ طفیل کے نام سے پکارتے تھے۔ میرے والد مرحوم اور اُنکے کزن میرے انکل حاجی اسلم قریشی اور ڈاکٹر خالد قریشی آف شارجہ سے اُنکے قریبی تعلقات تھے۔ والد محترم اور انکل ڈاکٹر خالد قریشی کے ساتھ تو ایم۔ طفیل مرحوم کی بلا کی بے تکلفی تھی۔ یہ سکول کے زمانہ کے دوست اور لنگوٹیے تھے۔ ڈاکٹر خالد قریشی جنہیں نوجوانی میں خالدی کہہ کر پکارا جاتا وہ دلچسپ فقرہ بازی کے ماہر تھے۔ ہمہ وقت دماغ میں کوئی ہلکی پھلکی شرارت اور مزاح اور ساتھ فلک شگاف قہقہے اور ایم۔ طفیل کی سنگت، خوبصورت جملوں کا تبادلہ محفل کو گرما دیتا۔ ہمارے ہوش سنبھالنے سے قبل ایم۔ طفیل کچھ عرصہ علامہ اقبال میموریل ہائی سکول گوہد پور میں درس و تدریس کے شعبہ سے بھی منسلک رہے اور شاید یہی وجہ تھی کہ اُنکے اندر فطری طور پر دوسروں کو سکھانے اور اُن کی راہنمائی کرنے کا جذبہ اور فن بدرجہ اتّم موجود تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں وہ لاہور شفٹ ہو گئے اور اولاً روز نامہ کوہستان کو جائن کیا جو اُس زمانے کا ایک بڑا اُردو اخبار تھا۔ پھر روزنامہ مساوات سے بھی منسلک رہے۔ اور آخر کار جب لاہور سے جنگ اخبار کا اجرا 1981 کے قریب ہوا تو اُسے جائن کر لیا اور آخر دم تک اسی اخبار سے منسلک رہے۔ وہ بنیادی طور پر غور و فکر اور سوچ کے انسان تھے اور سوچ بھی بڑی شائستہ اور پاکیزہ۔ وہ ایک عرصہ تک روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحہ کے انچارج رہے۔ اداریہ لکھنا اور اُس صفحہ کی تصیح و ترتیب ایک بڑی عمیق اور گہری فکر و مہارت کے متقاضی ہوتے ہیں۔ ایم۔طفیل مرحوم نے اپنی اس فنّی پختگی میں کبھی کوئی جھول نہ آنے دیا ۔ جب تک صحت مند تھے، ہماری فیملی کی ہر خوشی غمی میں شریک ہوتے رہے۔ گاؤں میں اُن کی موجودگی صاحب علم لوگوں کے لیے ایک بڑی خبر ہوتی کہ خواجہ طفیل کے پاس بہت سی خبریں، بہت سے تبصرے اور بعض ہوش رُبا حقائق ہوتے۔ ہمارے انکل ڈاکٹر خالد قریشی سال میں ایک مرتبہ شارجہ سے پاکستان آتے اور ایم۔ طفیل اُن کی سنگت کے لیے چٹی شیخاں ضرور آتے اور پھر بڑی کمال محفل سجتی۔ میرے والد محترم کی وفات کے بعد ایم۔طفیل اکثر میرے والد کی یادیں تازہ کرتے، بڑے ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو کرتے، دوسروں کی رائے کا احترام کرتے، نماز کی پابندگی اس قدر تھی کہ شاید ہی کوئی نماز قضا کی ہو۔ میرے جوڈیشل سروس جائن کرنے کے بعد جب کبھی ڈاکٹر خالد قریشی مرحوم لاہور آتے تو ایم۔طفیل مرحوم کے ساتھ بڑی خوبصورت محفیلیں سجھتیں۔ ایم طفیل کے پاس علم و آ گہی کا ایک خزانہ تھا جو اُن کے دھیمے انداز گفتگو سے جب چھلکتا تو ایک سحر طاری ہو جاتا۔

لاہور شہر میں رہتے ہوئے “ فاصلے” اتنے زیادہ ہو جاتے ہیں کہ میل ملاقات میں بے ربطگی آ جاتی ہے۔ لہٰذا چند سالوں سے ایسے ہی رہا۔ تاہم یہ کمی اپنے ہمدم دیرینہ اور کلاس فیلو اور روزنامہ جنگ کے سینئر صحافی مقصود بٹ پوری کر دیتے کہ وہ دونوں ایک ہی دفتر میں کام کرتے تھے اور پا طفیل کے ساتھ اُنکی اچھی بے تکلفانّہ گفتگو اور تعلقات تھے۔ جب بھی مقصود بٹ سے ملاقات ہوتی تو وہ پا طفیل کی خیر خبر سنا دیتے۔ مرحوم کے بچوں میں اُنکے ہونہار بیٹے مظہر طفیل اور اُنکی بیٹی فوزیہ گوہر اور اُنکے داماد گوہر بٹ میڈیا کے شعبہ میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔

نیک نامی کما کر دُنیا سے رخصت ہونا اُنکے اعلٰی و ارفع کردار کی گواہی ہے۔ صوم صلواۃ کی پابندی ایسی کہ نماز پڑھنے کے لیے عمر کا ایک بڑا حصّہ شلوار قمیض کو دفتری لباس کے طور پر اپنائے رکھا۔ مذہب سے گہرا لگاؤ، راست بازی، شرافت و نجابت، خیر خواہی، حُسن سلوک، شیریں بول، چہرے پر ہمہ وقت مسکراہٹ طاری، جھوٹ و غیبت سے پرہیز، وضع داری اور علم و ادب سے گہرا شغف ایم۔طفیل کی خوبصورت شخصیت کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کافی ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں ایک درویش منش صحافی ریاکاری سے کوسوں دور، عجز و انکسار کا پیکر تھے۔ ایم۔ طفیل “ پا طفیل” کی وفات صرف میڈیا اور اُس سے منسلک افراد کے لیے ہی ایک نقصان نہیں بلکہ معاشرہ اور ملک کے لیے بھی ہے کہ ایسے منفرد اور یکتا لوگ اب خال خال ہی نظر آتے ہیں۔

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

اپنا تبصرہ لکھیں