بحرین کے سفر کی روداد

بحرین کے سفر کی روداد
قسط نمبر پانچ
سید افتخار علی گیلانی
سابقہ قسط میں بتایا تھا کہ ایک ہفتہ نیو مسلم کئیر ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ گزرا۔جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے دلچسپی میں اضافہ ہو رہا ہے، چھٹے ہفتے ہمیں ساحل سمندر کی سیر کرائی گئی ،پاکستانی ڈرائیور زبیر بھائی بروقت ہماری رہائش واقع جفیر سے لینے آ گئے ، یہ تو میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ بحرین بہت چھوٹا ملک ہے میرے خیال میں میرے شہر ملتان سے بھی چھوٹا ہے۔تھوڑی دیر میں نیا شہر آ جاتا ہے۔ میری رہائش ٹیرس جفیر کے فلیٹ نمبر 123 میں تھی ، ایک فلیٹ میں تین افراد رہتے تھے اور میرے ساتھ دو ملائشین انٹرنی تھے ۔ ایک تو ہماری ہی ہونیورسٹی یعنی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ملائشیا کے طالب علم خیر الایمن تھے اور ہدایہ سنٹر فاونڈیشن کے برادر شفیق تھے ۔پورے دو ماہ میں ہمیں بہت سرپرائز دئیے گئے۔استاد پرویز اکبر بتاتے کہ ہم کل سیر کے لئے جائیں گے کہاں جائیں گے یہ نہیں بتانا آپ اسے گوگل کر کے دیکھ لیں گے اور دلچسپی نہیں رہے گے ، اب ہم گوگل کر کے ایک ایک تفریحی مقام بتا رہے ہیں کہ کیا ہم یہاں جا رہے ہیں ؟اور وہ کہتے کہ نہیں۔ اب ہم اپنے پاکستانی ڈرائیور سے پوچھ رہے ہیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں وہ بھی ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے اور بالآخر ہمیں ایک بہت خوبصورت مقام “JAU RESORT” لے جایا گیا جہاں ڈسکور اسلام سوسائٹی بحرین کے ہیڈ برادر محمد قدیر ہمارے استقبال کے لئے موجود تھے، یہ شہر سے تھوڑا دور تھا اس لئے ٹریفک کی وجہ سے ہمیں پہنچنے میں تھوڑی دیر ہو گئی ، برادر محمد قدیر نے رہنمائی کی کہ شام سے پہلے نہانے کا اہتمام ہے۔ سلائیڈز اور فوارےنہایت دیدہ زیب تھے، ہم کپڑے تبدیل کر کے پانی میں گھس گئے ، میرے لئے تو بس ایک سلائیڈ ہی کافی تھی ، کچھ دیر بعد میں تو پانی سے باہر نکل آیا ، احباب مجھے کہیں کہ ابھی ادھر ہی رہیں تو میں نے جواب دیا میری عمر کے حساب سے اتنا کافی ہے یہ نہ ہو زیادہ دیر پانی میں رہنے سے بیمار ہو جاوں،شام ہوتے ہیں ہم فوٹو گرافی کے لئے پھرنے نکلے، رفاہ برانچ کے لائبریرین برادر عبدالقدوس جن کا تعلق بنگلہ دیش تھا بڑی صاف اردو بولتے ہیں تصاویر بنانے کے بڑے ماہر ہیں، اسی طرح پاکستانی ڈرائیور زبیر بھائی نے بھی کافی تصاویر بنائیں، سمندر کے کنارے کا منظر بہت دلکش تھا انہوں نے اسے مزید خوبصورت بنا دیا ، بیٹھنے کے لئے بہت اچھا انتظام تھا ساتھ ساتھ جھولے بھے لگے ہوئے تھے ۔نماز عشا کے بعد پرتکلف کھانے کا اہتمام تھا ، اس میں عربی، ملائشین، تھائی اور دیگر انواع و اقسام کے کھانے موجود تھے، ہمارے ملائیشن دوست تو ملائی کھانے دیکھ کر بڑے خوش ہوئے۔وہاں پہنچ کر ہمیں کوئز پروگرام کا سرپرائز دیا گیا جسے برادر محمد قدیر کے بیٹے عبداللہ قدیر منیج کر رہے تھے۔ یہاں بھی امتحان دینا پڑا، انٹرنز کو تین ٹیموں میں تقسیم کر دیا گیا، مختلف آپشنز تھے، خیر ہم نے اسے بھی بہت انجوائے کیا لیکن سیکھنے کو بھی بہت کچھ ملا۔ یہ ایک یادگار دن تھا۔ اس ہفتہ ہمیں ڈاکٹر ناصر لوری نے “وقف” کے موضوع پر لیکچر دیا جو کہ بہت معلوماتی تھا۔ انہوں نے وقف کی اقسام بتائیں اور بتایا کہ غزوہ احد کے بعد سے وقف شروع ہوا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کنویں کا ذکر بھی ہوا انہوں نے بتایا کہ یہ اسلام میں پہلا وقف ہے جو اب تک جاری ہے ۔ دنیا بھر میں وقف کے تحت بننے والی مساجد اور تعلیمی اداروں کے بارے میں تفصیلی گفتگو فرمائی ، اہل مغرب کے ہاں وقف کا کیا نظام ہے یہ بھی تفصیل سے ذکر کیا، ڈاکٹر صاحب کی کمیونیکیشن سکلز بہت اچھی ہیں ، تمام حاضرین کے نام یاد کرکے انہیں لیکچر میں شامل رکھا۔ہم نے درخواست کی کہ آپ کا ایک اور لیکچر بھی ہونا چاہئے لیکن ہمارے شیڈول میں اس کی گنجائش نہ بن سکی۔برادر محمد قدیر کا ایک اور شاندار لیکچر “CHALLENGES FACED BY ISLAMIC ORGANIZATIONS”ہوا جس میں انہوں نے بتایا کہ اسلامی تنظیموں کو کن مشکلات کا سامنا ہے اور ان مشکلات سے نجات کے لئے کیا تجاویز ہیں۔اس ہفتے کی شاندار ایکٹی ویٹی “CONFLICT RESOLUTION SIMULATION” کے عنوان سے تھی ۔ اس سے بھی ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا ملا۔اس اتوار کو بحرینی شہری الشیخ احمد کوہیجی کے ہاں پرتکلف ظہرانے کا اہتما م تھا جس میں انواع و اقسام کے کھانے اور پھل پیش کئے گئے۔ روایتی انداز میں عربی کھانے موجود تھے۔ ڈسکور اسلام کی پوری ٹیم اور کوہیجی صاحب کے قریبی احباب اس محفل میں شریک تھے ۔ ہر انٹرن سے ان کے تجربات پر بات کی ، کمال شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ نے محسوس کیا ہوا کیا ہو گا کہ میں نے اپنی ہر روداد میں فلپینی بھائی عمران کا خاص طور پر ذکر کیا ہے کیونکہ بحرین میں اس آدمی کے ساتھ بہت اچھا تعلق بن گیا ۔ ان کی اہلیہ اور بیٹی بھی ان کے ساتھ دیوانہ وار دعوۃ کے کام میں مصروف رہتی ہیں۔ نہ صر ف میں بلکہ تمام انٹرنز کے ساتھ ان کا تعلق بہت اچھا تھا۔ ہمیں گھمانا پھرانا، ہمارے ساتھ گپ شپ کرنا ، ہمارے فلیٹ پر آجانا ، اکٹھے کھانا بنانا، معمول تھا ، ایک روز میں نے عمران بھائی کو اپنے فلیٹ پر بلایا اور ان سے کہا کہ آپ کے لیکچرز کی سلائیڈز مجھے دیں ، اپنی اسلام قبول کرنے کی کہانی سنائیں اور آپ بہت دلچسپ انداز میں امتحان لیتے ہیں یہ طریقہ بھی مجھے بتائیں تاکہ میں بھی اپنے طلبا سے ایسے امتحان لے سکوں ، یہ سب کام ہو گئے تو اسی دوران ایک اور داعی جن کے ساتھ ہمارے ملاقات نہیں تھی وہ آگئے ، آپ کا نام سیف الاسلام ہے اور آپ کا تعلق انڈیا سے ہے، آپ نے ہندو ازم سے اسلام قبول کیا اور یہاں دعوۃ کا کام کرتے ہیں، باتیں ختم ہی نہ ہوں ، میں رات کو جلدی سونے کا عادی ہوں ، ایک مرتبہ پہلے بھی ایسا ہوا ، عمران بھائی آئے اور رات دیر تک گپ شپ ہوتی رہی میں وہیں صوفے پر سو گیا ، لیکن اس بار تو نیند ہی اڑ گئی رات کی تین بج گئی لیکن باتیں ختم ہی نہ ہوں ۔ بہر حال یہ ہمارا آخری ہفتہ تھا اب باقی وقت ہمیں پروجیکٹ مکمل کرنے تھے اس لئے اب اور کوئی سیشن نہیں ہے ، اگلی قسط آخری ہو گی جس میں ہمیں ایک کیٹل فارم کی سیر کرائی گئی اور بحرین میں ایک شادی میں بھی شرکت کا موقع ملا ،انٹرن شپ پروگرام مخمل ہونے پر تقسیم اسناد کی شاندار تقریب منعقد ہوئی اس کے بارے میں بات کریں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں