باعثِ افتخار: آئین، انصاف اور قومی غیرت کا سوال

تحریر: انجینئر افتخار چوہدری
“وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا”
(بنی اسرائیل: 81)
کہہ دو کہ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹنے ہی والا ہے۔
“اِنَّ اللّٰهَ يَأۡمُرُكُمۡ أَن تُؤدُّواْ ٱلۡأَمَٰنَٰتِ إِلَىٰٓ أَهۡلِهَا وَإِذَا حَكَمۡتُم بَيۡنَ ٱلنَّاسِ أَن تَحۡكُمُواْ بِٱلۡعَدۡلِ”
(النساء: 58)
“اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔”
یہ آیاتِ مبارکہ صرف کلمات نہیں، بلکہ یہ انسانی معاشرت، ریاست اور حکمرانی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابدی اصول ہیں۔ پہلی آیت حق اور باطل کے درمیان ازلی کشمکش اور حق کی حتمی فتح کا اعلان کرتی ہے، جب کہ دوسری آیت انصاف، امانت داری اور اہل کو امانت سپرد کرنے کی بنیادی ذمہ داری پر زور دیتی ہے۔ پاکستان اس وقت انہی قرآنی اصولوں کی کسوٹی پر پرکھا جا رہا ہے۔
ایک نظرِ حقیقت: آئین کی حرمت اور انصاف کا امتحان
پاکستان اس وقت ایک ایسے تاریخی موڑ پر کھڑا ہے جہاں محض سیاسی جوڑ توڑ یا پارلیمانی تنازعات کی بات نہیں، بلکہ یہ آئین کی بالادستی، عدالتی انصاف اور قومی غیرت کے بنیادی سوالات کا وقت ہے۔ جب آئین کو محض ایک “کاغذ کا ٹکڑا” سمجھ کر اس کی دھجیاں بکھیر دی جائیں، اور جمہوریت کو چند طاقتور طبقات کے ذاتی مفادات کے تحفظ کا آلہ بنا دیا جائے، تو وہ لمحہ آ جاتا ہے جب سچ بولنا نہ صرف خطرناک بلکہ باعثِ افتخار بھی ہوتا ہے۔ یہ قلم آج ان مایوس دلوں، قیدِ ناحق میں پڑے نوجوانوں، سچ بولنے والے صحافیوں، اور ان ماؤں کے نام ہے جن کے لال آئینِ پاکستان کے تحفظ اور انصاف کی بازیابی کے لیے قید و بند کی صعوبتیں سہہ رہے ہیں۔ یہ ان بہادر افراد کے نام ہے جنہوں نے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات کی، چاہے اس کی قیمت انہیں اپنی آزادی اور سکون کی صورت میں ہی کیوں نہ چکانی پڑی ہو۔
آئین، قانون اور مخصوص نشستوں کی توہین: جمہوریت پر ایک بدنما داغ
حالیہ انتخابات میں جو ماجرا مخصوص نشستوں کے حوالے سے پیش آیا، وہ بلاشبہ جمہوریت پر ایک بدنما داغ ہے۔ آئینی دفعات کا حوالہ دینا ایک تکنیکی دفاع تو ہو سکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آئین کا روحانی مقصد کیا ہے؟ کیا آئین کو کسی مخصوص گروہ کے مفاد میں موڑا جا سکتا ہے؟ یا یہ ہر شہری کے حقوق کا محافظ، ریاست کی بنیاد اور اجتماعی معاہدے کا ضامن ہے؟
محترم کنور دلشاد صاحب نے اپنے کالم میں آئین کی دفعات 104، 208، 209، اور آرٹیکل 51، 106، 224 کا حوالہ دیا، لیکن کیا آئینی دفعات کے اطلاق میں نیت، شفافیت اور عدل شامل نہیں؟ آئین محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ ایک فلسفہ اور روح رکھتا ہے جو انصاف، مساوات اور عوامی رائے کے احترام پر مبنی ہے۔ اگر کسی پارٹی کو انتخابی نشان نہ دیا جائے، اسے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے پر مجبور کیا جائے، اور پھر غیر متناسب کامیابی کے باوجود اسے مخصوص نشستوں کے حق سے محروم کر دیا جائے، تو یہ آئینی چالاکی تو ہو سکتی ہے، مگر جمہوری شفافیت اور اخلاقیات نہیں۔ یہ عمل نہ صرف سیاسی جماعتوں کو اپنی جائز نمائندگی سے محروم کرتا ہے بلکہ عوام کے بنیادی حقِ رائے دہی اور ان کی آزادانہ مرضی کی توہین بھی ہے۔ جب عوام کی آواز کو آئینی موشگافیوں کے ذریعے دبایا جائے تو اس سے آئین اور جمہوری عمل پر سے اعتماد متزلزل ہوتا ہے۔
حدیثِ نبوی ﷺ کی روشنی میں: امانت، عدل اور انسانیت کی حفاظت
اسلامی تعلیمات، جو آئینِ پاکستان کی بنیاد ہیں، انصاف اور دیانت داری کو کلیدی حیثیت دیتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“إِنَّ أَعْظَمَ النَّاسِ فِي الْخِيَانَةِ مَنْ أَمَّنَهُ رَجُلٌ عَلَى دِينِهِ فَخَانَهُ”
(ابو داؤد)
“سب سے بڑی خیانت اس شخص کی ہے جسے اس کے دین کی بنیاد پر امانت دی جائے اور وہ خیانت کرے۔”
یہ حدیث نہ صرف فردی سطح پر خیانت کی سنگینی کو واضح کرتی ہے بلکہ ریاست اور حکمرانوں کی ذمہ داری بھی بیان کرتی ہے کہ وہ عوام کے اعتماد اور ان کی امانتوں کی حفاظت کریں۔ قوم کا آئین اور اس کا انتخابی نظام بھی ایک امانت ہے جسے اہل لوگوں کے سپرد کرنا اور اس میں خیانت نہ کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
اور فرمایا:
“اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ”
(بخاری)
“مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔”
یہ حدیث زبان اور عمل سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچانے کی تلقین کرتی ہے۔ جب عدل کے دروازے بند ہوں، زبانیں سچ بولنے سے محروم ہوں، اور ہاتھ ظلم کی علامت بن جائیں تو امتوں کی بربادی شروع ہو جاتی ہے۔ ایک ایسی ریاست جہاں شہریوں کی آواز کو دبایا جائے، جہاں ان کے حقوق پامال کیے جائیں، اور جہاں انہیں خوف کے سائے میں جینے پر مجبور کیا جائے، وہ اسلامی اصولوں اور انسانی اقدار سے کوسوں دور ہے۔ زبان پر قفل ڈالنا اور قلم کو توڑنا اسلامی تعلیمات کی روح کے خلاف ہے، جو حق گوئی اور عدل کی علمبرداری پر زور دیتی ہیں۔
نوابزادہ نصر اللہ خان: اصول پسندی کا استعارہ اور جمہوری جدوجہد کا نشان
ایک وقت تھا جب پاکستان کی سیاست میں نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے عظیم لوگ موجود تھے جن کے نزدیک سیاست اقتدار کی جنگ نہیں، بلکہ اصولوں کی پاسداری اور آئین کی حفاظت تھی۔ میں نے خود ان سے مدینہ منورہ میں ملاقات کی، اور ان کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں:
“پاکستان کو آئینی و جمہوری راستے سے چلاؤ، بندوق سے نہیں۔”
وہ پاکستان کی تاریخ میں ہر آمرانہ رویے کے خلاف سینہ سپر رہے اور پارلیمنٹ کو ایک مقدس ادارہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی مفادات کی خاطر اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور ہمیشہ آئین کی بالادستی اور جمہوری اقدار کے لیے جدوجہد کی۔ آج، جب پاکستان ایک بار پھر آئینی بحران اور جمہوری اقدار کی پامالی کا شکار ہے، تو نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے کردار کی شدت سے ضرورت ہے جو ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں آواز اٹھا سکیں۔ ان کی سیاست ایک درس تھی کہ حق اور سچ کی خاطر کھڑا ہونا ہی اصل باعثِ افتخار ہے۔
ریاست مدینہ کا نعرہ، مگر سیرت کہاں؟: قول و فعل کا تضاد
افسوس کہ آج پاکستان میں ریاستِ مدینہ کے دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں، لیکن سیرتِ طیبہ ﷺ کی جھلک کہیں نظر نہیں آتی۔ نبی کریم ﷺ کی ریاست انصاف، رواداری، اور مواخذے کی بہترین مثال تھی۔ حضرت عمرؓ جیسے خلیفہ نے ایک کپڑے کے اضافی ٹکڑے پر عوام کے سامنے جوابدہی دی، اور یہاں کروڑوں کے فنڈز، آئینی توڑ مروڑ، اور مخصوص نشستوں کی بندر بانٹ پر کوئی جوابدہی نہیں!
ریاستِ مدینہ کا تصور صرف اسلامی قوانین کا اطلاق نہیں ہے بلکہ یہ روحِ انصاف، احتساب اور اخلاقیات کا نظام ہے۔ جہاں حکمران جوابدہ ہوں، جہاں عوام کے حقوق کا تحفظ ہو، اور جہاں امیر و غریب کے لیے قانون یکساں ہو۔ آج کے پاکستان میں جب طاقتور کو رعایت دی جائے اور کمزور کو کچلا جائے تو یہ ریاستِ مدینہ کے تصور کی توہین ہے۔ قول و فعل کا یہ تضاد قوم میں مایوسی اور بے چینی کو جنم دیتا ہے۔
ایک تاریخی تناظر: آئین کا قتل اور اس کے تباہ کن نتائج
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی منتخب نمائندے کو آئینی طریقے سے ہٹانے کے بجائے درپردہ سازشوں، ادارہ جاتی دباؤ، اور عدالتی موشگافیوں سے راستے سے ہٹایا گیا، اس کا انجام ملکی وحدت کی کمزوری کی صورت میں سامنے آیا۔
* 1970 کی دہائی میں عوامی مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا گیا، مشرقی پاکستان کے عوام کے جائز حقوق کو غصب کیا گیا، اور مجیب الرحمٰن کو ان کا حق نہ دیا گیا۔ اس آئینی اور جمہوری قتل کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک دو لخت ہو گیا۔ یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ جب عوام کی رائے اور آئین کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہے، تو اس کے نتائج انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں۔
* 1990 کی دہائی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں کو بار بار سازشوں اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے ذریعے ہٹایا گیا۔ یہ عمل ملک میں سیاسی عدم استحکام کا باعث بنا اور جمہوری عمل کو پنپنے نہیں دیا۔
* 2000 کی دہائی میں ایک وردی والے نے آئین کو “ایک کاغذ کا ٹکڑا” کہہ کر اسے اپنی مرضی کے مطابق توڑا مروڑا۔ اس کے نتیجے میں عدلیہ کی آزادی سلب کی گئی اور آئینی اداروں کو کمزور کیا گیا۔
اب 2024 میں تاریخ خود کو دہراتی نظر آ رہی ہے: ایک مقبول عوامی لیڈر کو تمام تر سازشوں کے باوجود، عوام کی بے پناہ حمایت کے باوجود، سچ بولنے اور آئین و قانون کی بالادستی کا مطالبہ کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ انہیں جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے، ان کی جماعت کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے، اور ان کے حق کو آئینی چالاکیوں سے غصب کیا جا رہا ہے۔ یہ عمل نہ صرف سیاسی انتقام ہے بلکہ ملک کے جمہوری مستقبل اور آئینی ڈھانچے کے لیے خطرہ ہے۔
موجودہ منظرنامہ: خاموشی یا کردار؟
ملک کا ہر باضمیر شہری اس سوال کے کٹہرے میں کھڑا ہے: کیا آپ سچ کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا خاموشی کے پردے میں خود کو محفوظ رکھیں گے؟
یہ دور کسی “نیوٹرل” یا “بے خبر” بننے کا نہیں، بلکہ قلم، آواز، اور سچائی کے ساتھ کھڑا ہونے کا ہے۔ موجودہ صورتحال میں خاموشی اختیار کرنا دراصل ظلم کی حمایت کے مترادف ہے۔ جب ادارے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کریں اور ریاست کے بنیادی ستون انصاف، آئین اور جمہوریت کو پامال کیا جائے، تو ہر باشعور شہری کی یہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ آواز اٹھائے۔ تاریخ ان لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو مشکل وقت میں اصولوں پر قائم رہے، نہ کہ ان کو جو مصلحت پسندی کا شکار ہو گئے۔
قانون کی بازی گری: جب ادارے خود آئین سے کھیلیں
آج پاکستان میں قانون طاقتور کے گھر کی لونڈی بن چکا ہے۔ کسی کو رات کے اندھیرے میں اغوا کر لیا جاتا ہے، کسی کو مقدمات کی بارش سے دبایا جاتا ہے، اور کسی کو آزاد الیکشن لڑا کر مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ عدل کا نظام متزلزل ہو چکا ہے، اور انصاف صرف طاقتور کے لیے دستیاب ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جہاں قانون کی حکمرانی کی بجائے طاقت کی حکمرانی رائج ہو چکی ہے۔
کیا یہی ہے وہ پاکستان جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا؟ اقبال نے ایک ایسے اسلامی فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا تھا جہاں عدل، مساوات اور خودی کا بول بالا ہو۔ جس کے لیے قائداعظم نے فرمایا تھا:
“ہماری سیاست، معیشت، اور معاشرت، سب اسلام کے اصولوں پر ہو گی۔”
قائداعظم ایک ایسے پاکستان کے خواہاں تھے جہاں قانون کی بالادستی ہو، جہاں اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہوں، اور جہاں ہر شہری کو یکساں انصاف میسر ہو۔ آج جب ان بانیانِ پاکستان کے خوابوں کی نفی کی جا رہی ہے تو یہ باعثِ تشویش ہے۔
اصل سوال یہ ہے…
آج ہم سب کو اپنے گریبانوں میں جھانک کر کچھ بنیادی سوالات کے جواب تلاش کرنے ہیں:
* کیا ہم ملک کو چلانے کے لیے آئین کو مقدس سمجھتے ہیں یا اسے محض ایک ایسا آلہ جس کو اپنی مرضی سے توڑا مروڑا جا سکے؟
* کیا ہم اختلاف کو غداری سمجھتے ہیں؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص ملک کی بھلائی چاہے لیکن حکمران طبقے سے اختلاف رائے رکھے؟
* کیا ہم صرف وہی جمہوریت چاہتے ہیں جو ہمارے مفاد میں ہو؟ کیا عوام کا حقِ رائے دہی صرف اس وقت مقدس ہے جب اس کا نتیجہ ہمارے حق میں آئے؟
* کیا ہم عدل، شفافیت، اور میرٹ کو اپنی پارٹی وابستگی اور ذاتی مفادات پر قربان کر دیں گے؟ کیا ہم نے انصاف کے اصولوں کو اپنے ذاتی اور گروہی تعصبات پر ترجیح دینا چھوڑ دیا ہے؟
باعثِ افتخار کون؟
یہ سوال بہت اہم ہے کہ اس مشکل وقت میں باعثِ افتخار کون ہے؟
* وہ صحافی جو سچ بولنے پر جیل گئے، جن کے قلم روکے گئے، اور جن کی آواز دبانے کی کوشش کی گئی؟
* وہ سیاستدان جو آئینی حق مانگ رہے ہیں، جنہیں سازشوں اور جھوٹے مقدمات کے ذریعے نشانہ بنایا جا رہا ہے، لیکن جو اپنے اصولوں پر ڈٹے ہوئے ہیں؟
* یا وہ عام شہری جو ناحق قید و بند کی صعوبتیں کاٹ کر بھی امید کا دیا بجھنے نہیں دیتے، اور جو آئین و انصاف کی بالادستی کے لیے سڑکوں پر نکل آئے؟
باعثِ افتخار وہ ہے جو مشکل وقت میں بھی آئین و انصاف کے ساتھ کھڑا رہے، خواہ اس کا صلہ صرف تنہائی، ظلم یا قید ہی کیوں نہ ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جو تاریخ کے سنہری حروف میں اپنا نام لکھوا رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ذاتی آرام اور مفاد پر قومی غیرت اور انصاف کو ترجیح دے رہے ہیں۔
جذبہ انگیز پیغام: “جاء الحق” کا وقت ہے
یہ قوم اس وقت قیادت کی نہیں، کردار کی تلاش میں ہے۔ اگر ہم نے ابھی بھی آنکھیں نہ کھولیں، اور اپنے ضمیر کی آواز کو دبایا، تو کل تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ہمارا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ ہم آج کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
آئیں! اپنے ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہو کر فیصلہ کریں: کیا ہم باطل کے ساتھ ہیں یا حق کے علمبردار؟ کیا ہم اس خاموشی کا حصہ بنیں گے جو ظلم کو تقویت دیتی ہے، یا ہم اس آواز کا حصہ بنیں گے جو انصاف کا پرچم بلند کرتی ہے؟
“جاء الحق” کا وقت ہے – اس علم کو اٹھانے والا ہر فرد باعثِ افتخار ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور حق و انصاف کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک جمہوری، فلاحی اور اسلامی ریاست بنا سکتا ہے