نگران حکومت نے اپنے اقتدار کے آخری لمحات میں بھی مہنگائی کے سونامی اٹھا کر عوام کو عملاً زندہ درگور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ نگران حکومت کی اقتصادی پالیسیوں سے آنیوالے حکمرانوں کیلئے عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل سے عہدہ براءہونے کے چیلنجز مزید گھمبیر ہوتے نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ روز نگران حکومت کی جانب سے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرکے جان بچانے والی 146 ادویات کے نرخوں میں اضافہ کر دیا گیا جبکہ فارماسوٹیکل کمپنیوں کو اپنی ساختہ ادویات کے نرخ خود بڑھانے کا اختیار بھی تفویض کر دیا گیا۔ ادویات کے نرخوں میں اضافہ کی سمری ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے حکومت کو بھجوائی گئی تھی جس کی گزشتہ روز حکومت نے منظوری دے دی۔ اگرچہ لاہور ہائیکورٹ نے ادویات کے نرخوں میں اضافہ کیخلاف دائر ایک رٹ درخواست کی سماعت کے بعد نرخوں میں اضافے سے متعلق نوٹیفکیشن معطل کردیا ہے اور حکومت سے جواب طلب کرلیا ہے تاہم ادویات کے نرخوں میں اس وقت جس حد تک اضافہ ہو چکا ہے‘ اسکے پیش نظر جان بچانے والی روٹین کی ادویات بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر نکل چکی ہیں جبکہ نئے اضافے کا نوٹیفکیشن نئے حکمرانوں کی جانب سے واپس لئے جانے کا بھی بادی النظر میں کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ ادویات کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس‘ پانی کے نرخ بھی آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے بیل آﺅٹ پیکیج کے معاہدے کے تحت بڑھائے جاتے ہیں۔ جب تک یہ معاہدہ موجود ہے‘ عوام کیلئے مہنگائی کے سونامی اٹھانا حکمرانوں کی مجبوری بنا رہے گا جبکہ موجودہ عبوری معاہدہ کی تکمیل کے بعد نئی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آﺅٹ پیکیج کے نئے معاہدہ کی پہلے ہی منصوبہ بندی کی جاچکی ہے اور حکومت کی تشکیل کے بعد آئندہ ماہ مارچ میں حکومتی پالیسی سے متعلق اس کا پہلا کام آئی ایم ایف کے ساتھ نیا معاہدہ کرنے کا ہی ہوگا جس کی شرائط پہلے سے بھی سخت ہو سکتی ہیں چنانچہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل کے بعد اسکے ہاتھوں عوام کا کیا حشر ہونیوالا ہے۔ فی الوقت جن ادویات کے نرخوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے‘ ان میں کینسر ویکسینیشنز اور اینٹی بائیوٹک ادویات شامل ہیں۔ حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے حکومت کو مجموعی 262 ادویات کے نرخوں میں اضافہ کی سمری بھجوائی گئی تھی جس میں شامل 116 ادویات کے نرخ نہیں بڑھائے گئے مگر جن ادویات کے نرخ بڑھائے گئے ہیں وہ تمام عام امراض کے علاج کیلئے ضروری ادویات ہیں۔ اگر یہ ادویات عام آدمی کی پہنچ سے ہی باہر نکل جائیں گی تو اس سے شہریوں کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کی ریاستی ذمہ داری تو عملاً مذاق بن کر رہ جائیگی۔
