رمضان المبارک کے تین واقعات


رمضان المبارک کے یہ وہ تین واقعات ہیں جنھوں نے دنیا کی صورت یکسر تبدیل کر دی۔یہ صحیح ہے کہ امت کی کامیابی مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں بنائے جانے والی حکمت عملی،پالیسی،لائحہ عمل اور تد ابیر وضع کرنے کے نتیجہ میں ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ ابتدائی تین واقعات وہ مینارہ ¿ نور ہیں جن کی روشنی میں یہ کام اس طرح ہو سکتا ہے کہ امت بحیثیت پوری امت ِ مسلمہ اور مسلمان بحیثیت فرد کامیابی سے ہمکنار ہو۔لہذا کامیابی کے حصول کے مراحل میں یہ واقعات ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔پہلاواقعہ نزولِ قرآن ہے: واقعہ یہ ہے کہ قرآن نے حیات ِ انسانی کو جلا بخشی اور دنیا کو تاریکی ،گمراہی اورشرک کی جڑوںسے نجات دلائی۔لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کو حتی الامکان سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کو اپنی عملی زندگی کے شب وروز میں پیش آنے والے معاملات میں نافذ کریں۔اس کے مطابق اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگیوں کو ڈھالیں۔اس کے پیغام سے پیاسی روحوں کو تازہ دم کریں۔اس کے قیام کی سعی و جہد کریں اور اس کو وہ اہمیت دیں جو اس کا حق ادا کر دے۔دوسرا واقعہ جنگ بدر ہے:یہ واقعہ اُس حق و باطل کے فرق کو کھول کر رکھ دینے کا ہے جہاں حق کے علمبرداراِس سعی و جہد میں اپنی تمام نعمتوں کو اللہ کے حوالے کر دیتے ہیں ،جو اس نے عطا کی ہیں۔اللہ نے عقل دی ہے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے ۔جس کے ذریعہ انسان اور حیوان میں فرق نمایاں ہونا چاہیے۔ اللہ نے صلاحیتیں دی ہیں جن کے ذریعہ خیر و فلاح کے کام انجام دیے جانے چاہیں۔اللہ نے علم عطا کیا ہے جس کے ذریعہ جہالت،گمراہی اور باطل نظریہ ہائے افکار سے چھٹکارا پایااور دلایا جانا چاہیے۔اللہ نے مال دیا ہے جو خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اللہ کے کاموں میں استعمال کیا جا نا چاہیے۔اللہ نے جان دی ہے جس کے ذریعہ نظامِ باطل کو زیر کیا جا سکتا ہے اور یہ آخری انتہا ہے۔لیکن اس آخری انتہا سے قبل لاز م ہے کہ وہ کام انجام دیئے جائیں جن کا آغاز ہرشخص اپنی ذات سے کر سکتا ہے ۔لیکن اللہ کی راہ میں جان دینے کا کام اجتماعی ہوگا اور یہ اُسی وقت ہوگا جب اس کا تقاضہ ہو،فی الوقت اس کی ضرورت ملکِ عزیز میں محسوس نہیں ہوتی۔تیسرا واقعہ فتح ِ مبین ہے :یہ واقعہ اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے کہ حق کے علمبردار دنیا میں بھی سرخ رو ہوں اور آخرت کی ابدی کامیابی بھی حاصل کریں۔یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ اللہ کا گھر اور وہ مقام جو اللہ کی عبادت کے لیے مختص کر لیا گیا ہو وہ شرک اور بت پرستی سے پاک رہنا چاہیے۔یہ زمین اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہے لہذا اس میں باطل سے سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔یہ زمین وہ ہے جہاں اللہ کے نام لینے والے اللہ کے آگے سربجود ہوتے ہیں،اس کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہیں، اس سے اپنی توقعات وابستہ کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیںاور اسلامی فکر میں اجتماعی روح پروان چڑھاتے ہیں۔یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں کسی بھی مرحلے میں کامیابی حاصل کریں تو وہ مزید اللہ کی بڑائی بیان کرنے والے بن جائیں، ان کی کمر غرور و تکبرکے محرکات سے اکڑیں نہیںبلکہ مزیدوہ اللہ کے آگے جھک جانے والا بن جائیں۔فائدہ یہ ہوگا کہ اُن میں انسانوں سے مزید خیر خواہی کے جذبات ابھریں گے جس کی آج شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔یہ تین واقعات اس جانب بھی متوجہ کرتے ہیں کہ ماہ قرآن کے استقبال ،اس سے استفادہ اور اس کے بعد کے ایام میں ،ہمیں اپنے ظاہر و باطن میں وہ محرکات پیدا کر لینے چاہیںجن کے اختیار کے نتیجہ میںاللہ اور اس کے بندوں کے ہم محبوب بن جائیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں