ٹمٹماتا ستارہ اور میری آنکھ۔

باعث افتخار
انجنیئر افتخار چودھری

ٹمٹماتا ستارہ اور میری آنکھ۔


رمضان کی برکتیں سایہ فگن ہیں‘ سوچتا ہوں کہ پچھلے رمضان میں جو لوگ اپنے گھر میں بچوں

کے ساتھ روزے رکھ رہے تھے آج اس رمضان میں وہ ہمارے ساتھ نہیں ہے بچے اپنی ماؤں کی اس جگہ کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھیں گے مجھے خورشید رضوی کی وہ نظم بہت یاد آتی ہے جس میں انہوں نے اپنی والدہ محترمہ کا ذکر کیا تھا کہ پچھلے رمضان میں میری ماں اس جگہ بیٹھ کے روزہ کھولا کرتی تھی اور بچیوں کے درمیان وہ مجسم دعا ماں وہ کدھر گئی مجھے اس نظم کی تلاش ہے وہ ملی تو میں آاپ کے سامنے رکھوں گا لیکن اج میں اپنی بھابی صاحبہ جو بھی چند روز پہلے اس دنیا سے چلی گئی ہیں ان کے بچوں کے لیے ملک رب نواز عمر واصف کاشف اور بہت ساری بچیاں ان کے درمیان سے ماں کا اٹھ جانا بہت یادآتا ہے دنیا کی سب ہی مائیں بہت اچھی ہوتی ہیں لیکن کسی نے کہا ہے کہ ماں اپنی سب سے خوبصورت ہوتی ہے میرے دوست مرحوم رؤف طاہر یہ لکھا کرتے تھے اور بولا کرتے تھے کسی گوری کو ماں نہیں بنایا جا سکتا چاہے اپنی ماں کی چہرے پر جھریاں ہی جھریاں کیوں نہ ہوں خوبصورت وہی ہے ایک تصویر عمر نے لگائی جو دبئی جانے سے پہلے اپنی والدہ سے گلے مل رہا تھا اج شعبان کاآخری دن ہے جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اس بچے کو ڈھارس بھی بندھانا چاہتا ہوں کہ جس کی ماں شعبان میں اس دنیا سے چلی گئی مجھے پتہ چلا ہے کہ بھابھی صاحبہ نے کہا تھا کہ میرے بیٹے تم بیسویں روزے کو گھر انا اور پھر میں بارہ کہو سے تمہارے ساتھ گاؤں جاؤں گی اور یہ عید ہم ماں بیٹا اکٹھے کریں گے وہ وقت تو نہیں آیا لیکن جنت مکانی اس ماں کے لیے یہ میرے لفظ شاید اس کی ڈارس بندھا سکیں کہ میں بیماری کی وجہ سے سفر نہیں کر پایا جنازے پہ تو اگیا تھا لیکن ان کے دکھ میں شریک نہیں ہو سکا یہ اس ماں کا ذکر ہے جس کو اپنے بچوں کی تلاش تھی لوگ کہتے ہیں کہ ریال 70 یا 80 روپے کا ہو گیا ہے لیکن کبھی کسی نے یہ بھی سوچا ہے کہ اس 70 80 ریال کے بیچ کئی مائیں کئی باپ لوگوں سے جدا ہو جاتے ہیں یہ بڑا بھاری دکھ ہوتا ہے دوسرا یہ بات بھی معقول ہی لگتی ہے کہ ماؤں کے جنازے کو اس کے بچے کاندھا دیں ہمارے خاندان میں ایک اور دکھ بھی آیا ہے کہ ہماری ایک بہن کا بیٹا حنیف اس دنیا سے چلا گیا کسی نے کہا تھا کہ ماؤں کے لیے سب سے بڑا دکھ وہ ہوتا ہے کہ جب ان کی اولاد ان کے ہاتھوں سے چلی جائے حنیف سراپہ تبسم تھا اس عید پر اسے بھی ہم یاد کریں گے اور یہ چیزیں ہم جیتے جی کبھی نہیں بلا سکتے جس دن ہماری بھابی جان کا جنازہ تھا تو میں بھی قبرستان میں موجود تھا اور میرے سامنے بھائی ریاض اور بھائی فیاض کی قبر تھی ا کیا خوبصورت مصر ہے زمیں کھا گئی اسماں کیسے کیسے اسی قبرستان میں میرے چچا جان میرے کزن چودری ارشاد احمد اور میرے تایا جان اور کس کی بات کروں وہ سراپا پیار محبت میری دادی جان کی قبر بھی اتری ہے اور دادا جان جو میری پیدائش سے پہلے چھ ماہ پہلے اس دنیا سے چلے گئے یہ قبرستان ایک اسمان لوگوں کی داستان لیے پھرتا ہے چوہدری خیداد صاحب چوہدری شفیع صاحب اور چوہدری عبدالغفار شاہ کی قبریں یہ ضرور پوچھتی ہوں گی کہ ان میں سے ایک میرا ستارہ بھائی چوہدری برخوردار بھی تھا جو اس جگہ سے کوئی ڈھائی سو کلومیٹر دور گجرانوالہ میں محو استراحت ہے والد صاحب کا کہنا یہ تھا کہ اس شہر عظیم گجرانوالہ میں میں خالی ہاتھ آیا تھا اور بھرے تو جا رہا ہوں مجھے اس شہر کی مٹی میں ہی دفن کرنا اور اس کے بعد میری والدہ صبا اور میرے نامور بھائی چوہدری امتیاز گجر جن کی برسی رواں ہفتے میں ہوگی وہ اس بڑے قبرستان میں دفنائے گئے ہیں پھر بات ہمارے بہاول سے ائے میں ان کی بات کروں گا یہ میرے بھائی چوہدری ارشاد مرحوم جو 2002 میں اس دنیا سے چلے گئے یہ اس کے بعد 24 کو عمر کی امی اس دنیا سے چلی گئی 22 سال بچھڑے کا وہ دکھ جو انہوں نے اپنے اندر سنبھال رکھا تھا بڑی ابرو کے ساتھ اپنا وقت گزارا بڑی ٹھاٹس کے ساتھ ایک چودھری کا کردار ادا کیا میں اس سدا بہار چوہدرائن کو صرف ایک اس شعر میں یاد کرنا چاہوں گا کہ جانے والا جا چکا تھا اور میری انکھ میں اک لرزہ ٹمٹماتا سا ستارہ رہ گیا انور ہاشمی نے کیا خوب لکھا کہ انکھوں کے اندر جو آنسو ستارہ بن کر رہ جائے اس کا احساس اسی شخص کو ہوتا ہے جو ان آنکھوں کا وارث میں اس کے ساتھ ہی ماں اور رمضان کے حوالے سے بات کرنا چاہوں گا کیا اپ یقین کیجئے کہ دنیا بھر میں اپ گھومیں لیکن جو ماں کیآغوش اور اس کے ساتھ جو وقت گزرا ہوا ہو وہی وقت سنہری وقت ہوتا ہے اج روزہ کھولنے والے روزہ رکھنے والوں کو بہت ساریآسائشیں میسر ہیں میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان بننے کے ساتھ ہی جو گورا ہمارے ملک کو چھوڑ کے گیا جس غربت میں اس نے ہمیں چھوڑا وہ تو اپ کو پتہ ہے کہ بر صغیر کی معیشت 30 فیصد تھی اور جب وہ چھوڑ کے گیا تو تین فیصد تھی یہ انڈین دانشور نے انگریزوں کو جا کے ان کے ملک میں بتایا کہ تم تو لٹیرے تھے کہ صرف ہیرے اور جواہری اپ نے اپنے تاج میں نہیں سنوارے بلکہ بر صغیر پاک و ہند میں غربت کے انبار چھوڑ کے تم ائے ہو اپ یقین کریں کہ ہم پاکستان بننے کی فورا بعد اس نسل سے تعلق رکھنے ہیں جو سات اٹھ سال بعد پاکستان بننے کے بعد پیدا ہوئے لیکن ہم نے وہ غربتیں دیکھی ہیں اپ یقین کیجیے کہ اس وقت کھجور کے ساتھ روزہ کھولنا بھی بڑی بات سمجھے جاتی تھی والد صاحب الگ سے روزہ کھولتے تھے کوئی کھجور ہوتی تھی یا نمک اور اس کے بعد روزہ کھولنے فورا نماز کی ادائیگی اور بعد میں ا کے کھانا کھاتے تھے اور لوگو پاکستان کا حال حالات یہ تھا اج وہ کیا کہتے ہیں غریب سے غریب تر کو جو روزہ کھولنے کو ملتا ہے اپ یقین کریں اس وقت امیر ترین لوگوں کو افطار پہ وہ ملا کرتا تھا پھر آہستہ آہستہ تربوز گرمیوں میں اس افطار میں شامل ہوا آج اعجاز نے بڑی خوبصورت بات کی کہ اس وقت مسجد میں جا کے روزہ کھولنے کی ہمیں دل کرتا تھا کیونکہ وہاں کے محلے بھر کے چاول آیا کرتے تھے اور ہمارے جو قمیضیں ہیں ان کو پھیلاتے تھے کہ جب بالوں کڑیو ونڈی دی شرینی ائی سے تو اپنی قمیض میں وہ ہم چاول بھر لیتے تھے اور اس کے اوپر تیل لگا ہوا وہ قمیض یہ بتا رہی تھی کہ شہر شہر گلی گلی محبت اور پیار کے جو سندے سے جو الفت بانٹی جاتی تھی ہم بھی مسجد میں نماز پڑھتے تھے اپ کو پتہ ہے کہ مسجد سے نماز پڑھ کے ہم آتے تھے تو بہنیں اپنے چھوٹے بھائیوں کو اپنے کمر کے ساتھ لٹکائے مسجد کے دیوار کے باہر کھڑی ہوتی تھی اور ہم نمازی ان کے اوپر پھونک دیتے تھے یہ یہ کہاں گیا ہے احساس ابھی میں وہ بات یاد کر رہا تھا عبدالرشید ہمارے بہت پیارے ہری پور سے تعلق رکھنے والے گجر برادری کا بڑا درد رکھتے ہیں میں ان سے بات کر رہا تھا کہ بلے شاہ نے ایک دفعہ کہا تھا علموں بس کریں او یار تینوں اکو الف درکار آج غامدی صاحب نے جہلم کے مرزا صاحب نے اور مولانا اسحاق نے ہمیں زیادہ شعور دے کے ہمارے ساتھ زیادتی کی ہے ہم اسی دور میں رہنا چاہتے ہیں کہ کسی بزرگ کے ہاتھوں کو چوم لینا اور ان کے ساتھ دل کو ملا لینا سے جو ہمیں سکون ملتا تھا وہ اج کہیں نہیں ملتا مولوی نوری صاحب ہمیں یاد ارہے ہیں ہمیں قاری یوسف صاحب بھی یاد آ رہے ہیں مجھے نہیں پتہ کہ ہم وہابی تھے سنی تھے دیوبندی تھے کیا تھے اگر اشرف العلوم میں کھڑے ہو کر ہم نے ختم نبوت کی اواز لگائی تو کیا ہم وہابی ہو گئے یا پھر مسجد مدنی میں کھڑے ہو کے یوسف صاحب کی امامت میں نماز پڑھ لی اور یا مولانا نوری کی مسجد میں بیٹھ کے قران پاک ختم کر لیا مجھے پوچھے میں نے عبدالرحمان سدیس صاحب کے پیچھے بھی نماز پڑھی تو کیا میں وہابی کیا میں سنی ہوں کیا میں دیوبندی ہوں مجھے اج تک اپنا نہیں پتہ کہ میں کون ہوں میں ماؤں بہنوں کے دکھوں کو اپنے سینے میں لیے پھرتا ہوں اج رمضان ہے اخری دنوں میں شعبان کے اخری دور میں مجھے اس بات کی امید ہے کہ میرا اللہ مجھے وہاں بلائے گا میں مکہ جاؤں گا اور مدینہ جاؤں گا اور جا کے اللہ کے حضور یہ بھی پوچھوں گا کہ اللہ پاک میں کون ہوں سنی ہوں وہابی ہوں دیوبندی ہوں یا کوئی اور ہوں جب کوئی تاجدار ختم نبوت کی بات کرتا ہے تو مجھے وہ دن یاد اتے ہیں کہ ہم کس، طرح اکٹھے ہو کے قادیانیوں کو کافر قرار دیا تھا اس وقت تو ہم نے نہیں سوچا تھا کہ یہ مولوی نوری ہے یہ مولوی صادق ہے یہ مولوی منشا ہے یا مدرسہ اشرف العلوم کے پیارے بھائی قاری نعیم صاحب ہیں میں اس رمضان کی گھڑیوں میں دعا کرتا ہوں کہ ہمارے خاندان سے جتنے لوگ بھی چلے گئے ہیں اللہ ان کو جنت مکانی کرے جو بیمار ہیں اللہ انہیں شفا عطاء کرے دو دن بعد میرے بھائی جان کی برسی ہے اللہ پاک ان کی قبروں بھیجی کی قبر اور ماسی ہماری ابھی اس دنیا سے گئی ہیں ان کو بھی جنت کے باغوں میں سے باغ بنائے ماسی بہت پیاری تھی اج جب بات اپنی بھاوج کی کی تو مجھے یاد ا رہا ہے کہ ماسی بھی اپنی آنکھوں میں اپنے بھانجوں کے لیے بہت ساری دعائیں لے کر اس دنیا سے جا چکی ہے

اپنا تبصرہ لکھیں