کوئٹہ ( پ- ر)
مجلس فکر و دانش علمی و فکری مکالمے کے سربراہ عبدالمتین اخونزادہ نے اپنے ایک پالیسی بیان میں صوبہ کے اندر یونیورسٹیوں کے مالی بحران اور کئی مہینوں سے پروفیسرز و جملہ ملازمین کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ حکومتوں کی غفلت اور کوتاہی کے باعث صوبے کے جامعات اور اعلیٰ تحقیق و جستجو کے اداروں کی ابتر صورتحال انتہائی سنگین و تشویشناک صورت حال اختیار کر چکی ہیں جس کے باعث معاشرتی ترقی و پیشرفت کے سلسلے میں مفید اور تعمیری ماحول کی تشکیل و تعبیر نو کا خواب تشنہ تکمیل و فکری مکالمے کی مجموعی ھدف نا ممکن نظر آتا ہے یونیورسٹیوں کے معاملات پر عدم اعتماد و نہایت ہی خطرناک بدانتظامی صورت حال کا سامنا کرتا ہے، مادر علمی جامعہ بلوچستان انتہائی سنگین صورتحال کے باعث بندش کی طرف رواں دواں ہے جبکہ اعلیٰ تکنیکی ادارے بیوٹمز کی مجموعی صورتحال بھی ناقص کارکردگی کے باعث دیگر گوں ہوچکا ہے، صوبے کی واحد خواتین یونیورسٹی سیاست و بصیرت کی کمزوری اور مردانہ مداخلتوں کا گڑھ بن چکا ہے اور زرعی یونیورسٹی و بولان میڈیکل یونیورسٹی سمیت خضدار و لسبیلہ اور تربت و گوادر سمیت لورالائی و سبی یونیورسٹی کی پیش رفت ابھی تک قابل قدر خدمات انجام دینے تک نہیں پہنچ پایا ہیں ،
عبدالمتین اخونزادہ نے کہا کہ
ھائر ایجوکیشن کمیشن ، پیچلھلے تین چار صوبائی حکومتوں اور نصف درجن گورنروں کی پالیسیاں و اقدامات بے ھدف رہنے کے باعث اب تک تشکیل نہیں دے سکا ہے جس کے باعث معاشرتی و سماجی شعور اور آگہی و فکری مکالمے کے سلسلے میں ابتری کا سامنا ہیں جس کی بنیادی ذمہ داری 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد اور پہلے بھی صوبائی بیوروکریسی اور مینڈیٹ رکھنے والے گروہوں کی ذمہ داری ہیں نقل و ناقص کارکردگی کے باعث معیار و دانش مندی پہلے سے مفقود ہوچکے تھے اب سفارش و عدم میرٹ کی پالیسی اور ایسوسی ایشنوں کے بے سروپا نعروں کے ساتھ تنخواہیں نہ ملنے کی صورت میں اداروں کی بقاء کا سوال درپیش ہیں-
عبدالمتین اخونزادہ نے کہا کہ مجلس فکر و دانش سمیت صوبے کی سول سوسائٹی اور باشعور طبقات یونیورسٹیز ایکٹ 2022ء کو مسترد کرتے ہوئے اسے صوبے کی سیاسی جماعتوں و بیوروکریسی کے چالبازیوں کے باعث اجتماعی خود کشی قرار دیتا ہے اور اسے صوبائی اسمبلی و اسٹیٹس کو کے علمبرداروں کی طرف سے موجودہ حالت زار پر تیل چھڑکنے کے مترادف قرار دینے کی شعوری کوشش قرار دیا جاسکتا ہے جس کے شکار سابقہ گورنرز بھی رہے ہیں جنھوں جامعات کے متعلق میرٹ و تحقیق اور ترقی و پیشرفت کے بجائے سطحی اقدامات و نقشہ گری کے ذریعے اپنے ہمنواؤں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہیں تازہ ترین المیہ قریب کے تین گورنروں کا جامعات کے وائس چانسلرز کی توہین آمیز رویے کی عکاسی و آبیاری ہیں جس عدالت عالیہ نے واپس کرکے گورنر ہاؤس کی بے توقیری کو طشت ازبام کر دیا تھا جامعہ بلوچستان، خواتین یونیورسٹی اور لسبیلہ یونیورسٹی کے وائس چانسلرز نے عدالتی فیصلہ کے ذریعے مدت ملازمت مکمل کرلیا لیکن صوبے کی سب سے پہلے بننے والی یونیورسٹی جامعہ بلوچستان ، خواتین یونیورسٹی اور لسبیلہ زرعی و میرین یونیورسٹی ان کے دور میں عملی طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں جس کی ذمہ داری عدلیہ کے ججوں کو قبول کرنا چاہیے اور لمحہ موجود میں مستقل طور پر فعال منتظم بطور وائس چانسلر مقرر کرنے کا میکنزم تشکیل دیا جانا چاہئے –
پالیسی بیان میں
مجلس فکر و دانش نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ضروری ہے کہ جامعات میں مجموعی اورہالنگ اور صفائی و پاکیزگی کے لئے با اختیار و با اعتماد صوبائی ھائیر ایجوکیشن کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ وسائل کے درست استعمال اور تحقیق و جستجو کے اعلیٰ سطحی بین الاقوامی معیاروں کو فعال کرتے ہوئے ٹیکنالوجی بیس معاشرے کی تشکیل و تعبیر نو کے لئے ممکن العمل اقدامات و دانش مندی کا رجحان فروغ دیا جاسکے اور ممبران اسمبلی و بیوروکریسی کی چالبازیوں کا راستہ روکا جائے ورنہ تباہیوں اور بربادیوں کا سامنا کرنا ہوگا حالیہ دنوں میں نئی نویلی دلہن حکومت نے جس طرح چار ممبران اسمبلی کا ٹولہ جامعہ بلوچستان کے مسائل و معاملات سمجھنے و احساس دردمندی سے حل کرنے کے بجائے الجھنوں کا شکار بنانے کے لئے بھیجا گیا اور دو ممبران نے بیوٹمز کے اوپر خود کش حملے کی صورت میں وارد ہوئے ہیں اور خود مختار وزیر اعلیٰ صاحب نے جس طرح وائسرائے کے طور پر معاشرتی و سماجی اقدار و روایات کے برعکس اشرافیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے وائس چانسلرز یعنی شیخ الجامعات کو ڈانٹ ڈپٹ کرکے دو ماہ کے اندر تمام یونیورسٹیوں میں اصلاحات نافذ کرنے کا فیصلہ صادر فرمایا ہے حالانکہ صوبائی حکومت اپنے ناک کے نیچے صحت و تعلیم کے نظام کو درست کرنے کے بجائے برباد کر چکے ہیں اور میونسپل سروسز کی بحالی و فراہمی میں ناکامی پر جمہوری و انتخابی نظام سیاست و بصیرت پر کھڑے سوالات و چیلنجرز سر اٹھائے کھڑے ہیں –
عبدالمتین اخونزادہ نے کہا کہ
مجلس فکر و دانش بطور آزاد تھینک ٹینک جامعات و یونیورسٹیز کے ماحول میں بہتری و اطمینان لانے کے لئے یونیورسٹیز ایکٹ اور تعمیری ماحول کی عکاسی و آبیاری کے لیے ڈائیلاگ و مکالمہ کا اہتمام ضروری سمجھتے ہیں اور مجموعی بصیرت کے ذریعے مجموعی اورہالنگ تجویز کرتی ہیں