مگر پیٹ اور بھوک کی تو کوئی چھٹی نہیں ہوتی

آج یکم مئی یومِ مزدور منایا جا رہا ہے۔ قومی چھٹی ہے۔ سکول، دفاتر اور کاروبار بند ہیں۔ اکثر لوگ تفریح اور آرام کریں گے مگر پیٹ اور بھوک کی تو کوئی چھٹی نہیں ہوتی۔ پیٹ تو ہر چند گھنٹوں کے بعد پکارتا ہے کہ مجھے کچھ دو۔ نہ ملے تو آہ و بکا کرتا ہے۔ لہٰذا اس یومِ مزدور پر بھی مزدور دیہاڑی کر رہا ہے۔ مزدور کو چھٹی نہیں۔ وہ کیسے اپنے پیاروں اور بچوں کے بھوک زدہ بے رونق چہروں کی زردی اور آزردگی برداشت کر سکتا ہے۔ دیہاڑی ملے گی تو چولہا جلے گا اور اسکے بیوی بچوں اور ماں باپ کو روٹی ملے گی۔ وہ اپنا بیلچہ اور کدال کندھے پہ اٹھائے دیہاڑی کے لئے نکل پڑا ہے۔مزدور اور محنت کش کے اوقات ہمیشہ ہی تلخ رہے ہیں۔ اقبال کا قادر و عادل سے سوال دراصل سنگدل معاشروں کے ظالمانہ نظام کو بے نقاب کرنے کی سعی ہے۔ 

اپنا تبصرہ لکھیں