ہم نہیں مانتے ،،،آوو،،کے ضابطے
باعثِ افتخار انجینیئر افتخار چودھری
پاکستان کے واحد وزیراعظم ہیں جو لوگوں کو رنگیلا منور ظریف اور زلفی کو بھولنے نہیں دیتے ہونڈا کمپنی کے مزدوروں نے انہیں ایک نئی شرارت سے اگاہ کیا جس کا نام ہے ،،آوو،،
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اپنے مطالبات یا حق کے لیے بزدلی کا سہارا نہیں لیا۔ انہوں نے ہمیشہ ظلم کے خلاف واشگاف الفاظ میں نعرۂ حق بلند کیا۔ “اؤ” جیسی آواز، جو گڑگڑاہٹ اور عاجزی کی علامت ہو سکتی ہے، مسلمانوں کے شایانِ شان نہیں۔ ہمارا دین ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ جب حق چھینا جائے یا ظلم ہم پر مسلط ہو، تو ہم اپنی بات کھلے الفاظ میں، واضح انداز میں اور مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کریں۔
آج پاکستان کی سیاست میں عمران خان ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا ایک استعارہ بن چکے ہیں۔ وہ شخص جسے جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر، جیل کی اندھیری کوٹھری میں ڈال کر خاموش کرانے کی کوشش کی گئی، اس نے بھی “اؤ” کی آواز نہیں نکالی۔ اس نے ہمیشہ حق کے لیے للکارا، اپنے اصولوں پر ڈٹا رہا، اور قوم کو یہ پیغام دیا کہ ظلم کے آگے جھکنا مسلمان کی شان نہیں۔
بلال حبشیؓ کا “اَحَدْ اَحَدْ” اور امام حسینؓ کا “ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے” کا نعرہ ظلم کے خلاف ایک واضح پیغام تھے۔ یہ وہ آوازیں تھیں جو وقت کے ظالم حکمرانوں کے ایوانوں کو لرزا دینے والی تھیں۔ آج عمران خان بھی اسی روایت کو زندہ کر رہے ہیں۔ وہ اپنی ذات، مال و دولت، اور عیش و آرام کو پس پشت ڈال کر ایک ایسے نظام کے خلاف کھڑے ہیں جو عام آدمی کے حقوق کو کچل رہا ہے۔
اگر عمران خان نے بھی “اؤ” کی آواز لگائی ہوتی یا خاموشی اختیار کی ہوتی، تو شاید آج ان کے چاہنے والے میدان میں نہ نکلتے۔ لیکن وہ ایک نعرۂ حق بن چکے ہیں، جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے مظلوموں کو یہ سکھایا ہے کہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانا ہی مسلمان کی پہچان ہے۔غازی ملت علم دین شہید جس نے اپنے چاکو کے وار سے رنگی لا رسول لکھنے والے پبلشر کو جہنم واصل کیا تھا اگر وہی علم الدین شہید جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا کہ تر کھانا دا منڈا ساڈے کولوں نمبر لے کے احتجاج کرتے تو اج تاریخ میں اس کا کوئی نام نہ ہوتا ختم نبوت کے پروانے جنہوں نے اپنی جانیں 1958 میں بھی اور 1974 میں بھی اللہ کے حضور پیش کی تو انہوں نے او نہیں کیا 1965 کی جنگ میں یہ بڑا اسان تھا عزیز بھٹی کے لیے کہ وہ اپنے مورچے پہ بیٹھ کے،، آوو،، کی اواز لگاتے اور جنرل چودری کو جم خانہ کلب میں چائے کی دعوت کرا دیتے پھر راشد منہاس کو پاکستان کی حدود میں ہی طیارہ گرا کر جان نہ دینا پڑتی وہ جو بنگالی کو کہتے کہ بنگالی بھائی جان او یہ قومیں وزیراعظم صاحب اپ کی طرح کہ لوگوں کو قوم یاد نہیں کرتی جو سو بکسوں کے ساتھ سرور پیلس میں جا کے گوشہ نشین ہو گئے تھے اور ہم وہاں بھی نعرہ حق بلند کرتے رہے اور جنرل درانی نے ہمیں 71 دن بند کر دیا اپ پھر بھی او کریں گے جب کچھ مشکل وقت ایا اپ کا کیا مقابلہ عمران خان سے اپ تو اس دور میں ہی شامل نہیں ہیں یہاں پہ دوڑ ہے حق باطل کی اور دوسری طرف شیطانی قوت اس کا کوئی بھی رنگ ہو سکتا ہے 71 کی جنگ میں لوگوں نے جانے دی مگر جنہوں نے لڑنا تھا اور مرنا تھا انہوں نے 16 دسمبر 1971 کو پلٹن میدان میں،، او،، کر دیا
عمران خان کی جدوجہد کسی ذاتی فائدے کے لیے نہیں بلکہ ایک ایسے پاکستان کے لیے ہے جہاں آئین اور قانون کی حکمرانی ہو۔ ان کی قید و بند کی صعوبتیں ہمیں ان مسلمانوں کی یاد دلاتی ہیں جنہوں نے ظلم کے خلاف اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ قیدی نمبر 804 کی حیثیت سے عمران خان آج پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں ایک روشن مثال ہیں۔ انہوں نے نہ صرف ظلم کو للکارا بلکہ اپنی قوم کو بھی یہ سکھایا کہ اپنے حقوق کے لیے ڈٹ جانا ہی حقیقی آزادی ہے۔
2024 پاکستانی قوم کے لیے ظلم و جبر کا سال رہا۔ جب قاضی اور راجہ سکندر جیسے کرداروں نے ووٹ چھینے، سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا، اور اپنی مرضی کے فیصلے کروائے، تب عمران خان ایک ایسا استعارہ بن کر ابھرے جو اس نظام کے خلاف اپنی آخری سانس تک لڑنے کو تیار ہے۔ یہ وہ سال تھا جب “اؤ” کرنے والے خاموش ہو گئے، لیکن عمران خان اور ان کے حامیوں نے میدان خالی نہ چھوڑا۔ انہوں نے “اؤ” کی جگہ وہ للکار بلند کی جس نے ظالموں کو ان کے محلوں میں لرزا دیا۔ عمران خان کا یہ عزم درحقیقت مسلمانوں کی اس تاریخ کا حصہ ہے جہاں ظلم کے خلاف ڈٹ جانا ایمان کی نشانی ہے۔ڈی چوک ظلم کی داستان لئے ہوئے ہے ۔
وزیراعظم صاحب! آپ نے “اؤو” کو احتجاجی آواز کہا، لیکن یہ حقیقت میں بزدلی کا اعتراف ہے۔ مسلمان کبھی مبہم آوازوں یا دبے دبے احتجاج کا سہارا نہیں لیتے۔ ہم وہ امت ہیں جن کے اسلاف نے وقت کے فرعونوں کے سامنے کلمہ حق بلند کیا۔
آج عمران خان ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا ایک روشن استعارہ ہیں۔ وہ اپنے اصولوں پر کھڑے ہیں، چاہے اس کے لیے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ وہ ہمیں یہ سکھا رہے ہیں کہ بزدلی کے ساتھ جینا، یا “اؤ” کی آواز نکالنا مسلمانوں کے شایانِ شان نہیں۔
ہمیں “اؤ” کی نہیں، ایسی للکار کی ضرورت ہے جو ظالم کو لرزا دے، مظلوم کو حوصلہ دے، اور انصاف کو یقینی بنائے۔ یہ وقت بزدلی کے مظاہروں کا نہیں بلکہ حق کے لیے ڈٹ جانے کا ہے۔ عمران خان کی قیادت میں، یہ قوم وہ نعرۂ حق بلند کرے گی جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ظلم کے خلاف ایک مثال بن جائے۔خدا کے لیے ہمارے محافظوں کو یہ سبق نہ سکھائیں کہ وہ دشمن کے حملے کے دوران ،،اوو،، کر دیں۔ہم نہیں مناتے ،،آوو،، کے ضابطے
