فساد خبر سے بھی ،، باعث افتخار۔

،،۔ انجینئر افتخار چودھری

دنیا میں کچھ تعلقات صرف مفادات کی بنیاد پر بنتے ہیں، جو وقت گزرنے کے ساتھ مدھم ہو جاتے ہیں، لیکن کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جو دلوں سے جڑ کر وقت کے ساتھ مزید مضبوط اور گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کا تعلق بھی ایسا ہی ہے۔ یہ دو حکومتوں کا نہیں بلکہ دو دلوں، دو ملتوں اور ایک دین کا رشتہ ہے۔ ایسا رشتہ جو “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” کے کلمے کی بنیاد پر قائم ہوا۔ ایک ہی کعبہ، ایک ہی قبلہ، ایک ہی قرآن، ایک ہی نبی نے ہمیں جوڑا — اور یہی بنیاد ہے ہمارے تعلق کی پائیداری کی۔
یہ تعلق آج کا نہیں بلکہ صدیوں پرانا ہے۔ برصغیر کے وہ دن یاد آتے ہیں جب تقسیمِ ہند کا تصور بھی نہ تھا، اور نوابانِ بہاولپور و دکن کے علما، سپاہی اور تاجر حجاز مقدس کی خدمت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرتے تھے۔ وہ گندم، چاول، کپڑا اور دیگر اجناس لے کر حجاز آتے اور وہاں کے حاجت مندوں میں بانٹ دیتے۔ یہ محض خیرات یا صدقہ نہیں بلکہ عشق کی جھلک تھی۔ نواب آف بہاولپور نے باقاعدہ طور پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں مدارس، مساجد اور یتیم خانوں کے لیے وظائف مقرر کیے۔ ان گمنام عاشقوں کا فیض آج بھی حجاز مقدس کی فضاؤں میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔
سعودی عرب نے بھی ہمیشہ پاکستان سے اس تعلق کو عزت، محبت، خلوص اور ایثار سے نبھایا۔ قیامِ پاکستان کے بعد شاہ سعود کا تاریخی دورہ ہو یا شاہ فیصل اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان قائم ہونے والا تعلق — ہر موقع پر اس دوستی نے اسلامی دنیا میں ایک نئی روح پھونکی۔ شاہ فیصل کی شہادت پر پورے پاکستان کا سوگ منانا محض ایک سیاسی رہنما کے جانے پر غم نہیں تھا بلکہ ایک روحانی بھائی، ایک ہم مذہب، ایک عاشقِ رسول کے بچھڑنے پر دل کا درد تھا۔
آج سعودی عرب میں تقریباً پچیس لاکھ پاکستانی محنت و دیانت سے رزقِ حلال کما رہے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے خاندانوں کے لیے سہارا ہیں بلکہ پاکستان کی معیشت میں اربوں ڈالر کے زرمبادلہ سے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ سعودی حکومت نے ہمیشہ ان محنت کشوں کو عزت، تحفظ اور مذہبی آزادی دی، جس پر ہر پاکستانی دل سے شکر گزار ہے۔
نوابانِ دکن کے دور میں جو خادم اور چوکیدار حجاز میں خدمت انجام دیتے تھے، وہ اکثر یمن سے آتے تھے۔ ان کے خاندانوں کی آبادیاں آج بھی دکن میں موجود ہیں۔ کراچی میں بھی ایسے خاندان ملتے ہیں جن کی جڑیں ان محنت کشوں سے جڑی ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ میں بھی ایسے افراد سامنے آئے جن کا پس منظر خلیج سے منسلک تھا — جیسے وزیر عباس بازیر، جو ضیاء الحق کے زمانے میں سندھ کے وزیر تھے
پنجابی میں کہاوت ہے: “کدی چاچے دی، کدی بابے دی” — وقت کسی کا ایک سا نہیں رہتا۔ کبھی ایک قوم اوج پر ہوتی ہے، کبھی دوسری زوال کا شکار۔ ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ پاکستان اور سعودی عرب دونوں کو سلامت رکھے، ترقی دے اور ان کی دوستی میں کبھی زوال نہ آئے۔
لیکن آج ہمیں ایک نئے فتنے سے خبردار رہنا ہوگا — فیک نیوز کا فتنہ۔ سوشل میڈیا پر بعض عناصر ایسی خبریں پھیلاتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کبھی کسی غیر ملکی سربراہ کا بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے، کبھی کسی خلیجی رہنما کی بات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پھیلایا جاتا ہے۔ ایسی خبریں نہ صرف دوستی کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ قوموں کے درمیان بدگمانیاں پیدا کرتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہر خبر پر فوراً یقین نہ کریں، تحقیق کریں، سوچیں کہ کہیں ہم دشمن کے ایجنڈے کا حصہ تو نہیں بن رہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دشمن ہمیشہ بارود یا ٹینک سے حملہ نہیں کرتا۔ بعض اوقات وہ ذہنوں میں وسوسے، دلوں میں شک اور قوموں میں نفرت پیدا کرتا ہے۔ وہ آپ کو قلم، موبائل اور سکرین کے ذریعے مفلوج کرتا ہے۔ ہمیں اس وار سے ہوشیار رہنا ہوگا۔
نزار قبانی نے کیا خوب کہا تھا:

في حضرةِ الحرمِ… نبكي جميعاً،
لا فرقَ بيننا… إلا مقدارُ الدعاءِ

یعنی: “حرم کی حضوری میں ہم سب ایک جیسے روتے ہیں، فرق صرف دعا کے انداز میں ہوتا ہے۔”
وہ مقام جہاں سب ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں — کوئی پاکستانی، کوئی شامی، کوئی مصری، کوئی سعودی — سب برابر، سب بندے، سب مسلمان۔
میں اپنے سعودی دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس اہم موضوع کی طرف توجہ دلائی اور اس دوستی کے تقدس کو اجاگر کرنے کا موقع فراہم کیا۔
آخر میں میری تمام پاکستانیوں، خصوصاً سیاسی حلقوں، سے گزارش ہے کہ اس عظیم رشتے کو وقتی مفادات، پوائنٹ اسکورنگ یا فیک خبروں کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ یہ تعلق صرف آج کا نہیں، یہ صدیاں پرانا رشتہ ہے — ایک ایسا چراغ جسے اگر ہم نے ہواؤں سے بچا لیا تو یہ نسلوں کو روشنی دیتا رہے گا۔
یہ صرف دو حکومتوں کا معاہدہ نہیں، یہ دو قوموں کے سجدوں، آنکھوں کے آنسوؤں، دلوں کے جذبوں، اور تاریخ کے گواہ لمحوں کا رشتہ ہے۔ اسے سلامت رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔