وزیراعظم محمد شہباز شریف کے سرکاری دورہء سعودی عرب کے موقع پر پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تاریخی دفاعی معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت پاک فوج حرم شریف اور روضہء رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محافط ہوگی اور کسی ایک ملک کے خلاف بیرونی جارحیت دونوں کے خلاف جارحیت تصور ہو گی جس کا مشترکہ طور پر جواب دیا اور دفاع کیا جائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف گذشتہ روز نائب وزیراعظم محمد اسحاق ڈار، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، وفاقی وزراء محمد اورنگ زیب، مصدق ملک اور معاونِ خصوصی طارق فاطمی کے ہمراہ سعودی عرب کے دورے پر آئے تو ان کا شاندار شاہانہ استقبال کیا گیا۔ سعودی جنگی جہازوں نے وزیراعظم کے طیارے کا سعودی فضا میں ہی حصار بنا لیا اور ائرپورٹ پر وزیراعظم کو 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے جہاز کے کاک پٹ میں جا کر مائیک کے ذریعے سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم ائرپورٹ سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کے لیئے قصرِ ال یمامہ پیلس پہنچے جہاں شاہی دیوان پہنچنے پر گھڑ سواروں نے ان کا سعودی پروٹوکول کے ساتھ استقبال کیا جبکہ سعودی ولی عہد نے بھی وزیراعظم کا پرجوش استقبال کیا اور سعودی مسلح افواج کے دستوں نے وزیراعظم شہباز شریف کو گارڈ آف آنر پیش کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے مابین ملاقات میں مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال، مسئلہ فلسطین اور دیگر اہم امور پر تبادلۂ خیال کیا گیا اور پاک سعودی تعلقات کو مزید فروغ دینے اور تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا۔ دورانِ ملاقات دونوں رہنماؤں نے قطر پر اسرائیلی حملے کی ایک بار پھر مذمت کی۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے اس حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کے امن کے لیئے مسئلہ فلسطین کا حل ناگزیر ہے، پاکستان نے ہمیشہ فلسطین پر دو ٹوک مؤقف اختیار کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان مسئلہ فلسطین پر برادر سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس باہمی ملاقات کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق دفاعی معاہدے کی کامیابی میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان حرمین شریفین کے تحفظ میں سعودی عرب کا پارٹنر بن گیا ہے۔ پاک فوج حرم شریف اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرے گی۔ پاک سعودی قیادتوں کی اس ملاقات کے بعد دونوں قائدین اور پاکستان اور سعودی عرب کے وفود کی موجودگی میں مذاکرات کا باضابطہ آغاز ہوا اور وزیراعظم نے شہزادہ محمد بن سلمان کے لیئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ دوران اجلاس فریقین نے دونوں ممالک کے درمیان تاریخی اور سٹریٹجک تعلقات اور مشترکہ دلچسپی کے متعدد امور کا جائزہ لیا اور تبادلہ خیال کیا۔ مملکتِ سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان تقریباً آٹھ دہائیوں پر محیط تاریخی شراکت داری، بھائی چارے اور اسلامی یکجہتی کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے مابین مشترکہ سٹریٹجک مفادات اور قریبی دفاعی تعاون کے تناظر میں شہزادہ محمد بن سلمان اور وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین “سٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے” پر دستخط کیئے۔ اس کے بعد سعودی ولی عہد اور وزیراعظم پاکستان پرجوش انداز میں گلے ملے۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کی اپنی سلامتی کو بڑھانے اور خطے و دنیا میں سلامتی اور امن کے حصول کے لیئے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع و تحفظ کو مضبوط بنانا ہے۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ایک ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔ دریں اثناء سعودی عرب کے اعلیٰ عہدے داروں نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ دفاعی معاہدہ دونوں ممالک کے مابین طویل المدتی تعاون کا عکاس ہے۔ یہ معاہدہ کسی مخصوص واقعہ کا ردعمل نہیں بلکہ ایک جامع دفاعی معاہدہ ہے جو دونوں ممالک کے تمام فوجی وسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ سعودی عرب کا دورہ مکمل کر کے وزیراعظم شہباز شریف برطانیہ روانہ ہو گئے جہاں ان کی برطانوی حکام سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔ وہ 21 ستمبر کو برطانیہ سے امریکہ جائیں گے جہاں ان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کا امکان ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کریں گے اور 26 ستمبر کو وہ جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ ان کی فلسطین سے متعلق دوریاستی حل کی سربراہ کانفرنس میں شرکت بھی متوقع ہے جو 22 ستمبر کو نیویارک میں منعقد ہو رہی ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مسلم برادر ہْڈ کے جذبے کے ساتھ پاک سعودی تعلقات دنیا میں ایک ضرب المثل بن جکے ہیں۔ آٹھ دہائیوں پر محیط ان تعلقات میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا اور ہر گذرتے دن یہ تعلقات مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں اور ہر قدرتی آفت و افتاد پر پاکستان اور اس کے عوام کی دل کھول کر امداد کی ہے اور ہاکستانی تارکینِ وطن کو بھی سعودی دھرتی پر سہارا دیا ہے۔ برادر سعودی عرب مسئلہ کشمیر اور دوسرے سٹریٹجیکل معاملات پر بھی پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ اسی طرح پاکستان نے بھی ہر مشکل گھڑی میں سعودی عرب کی جانب دستِ تعاون دراز کیا ہے اور کسی بیرونی جارحیت کے خطرے میں وہ ہمیشہ برادر سعودی عرب کے لیئے ڈھال بن جاتا ہے۔ پاک فوج پہلے بھی حرمین شریفین اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا فریضہ ادا کرتی رہی ہے۔ اب پاک سعودی نئے دفاعی تعاون کے معاہدے سے دونوں برادر ممالک کے دفاعی اور تذویراتی تعلقات میں مزید وسعت اور استحکام آئے گا۔ حرمین شریفین کی حفاظت اور ان کے تقدس کا تحفط تو ویسے ہی ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے اور اس مقدس فریضے کی ادائیگی میں کبھی کوئی فروگذاشت ہو ہی نہیں سکتی۔ اب پاک سعودی باقاعدہ دفاعی معاہدے کے تحت سعودی پاک دھرتی پر کوئی آنچ نہ آنے دینا افواج پاکستان کی باضابطہ ذمہ داریوں کا حصہ بن گیا ہے اور دونوں برادر ممالک نے اپنے خلاف کسی بھی بیرونی جارحیت کا سدباب بھی اپنی مشترکہ ذمہ داریوں کا حصہ بنا لیا ہے تو یہ بلا شبہ اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے احیا کی جانب عملی پیش رفت ہے جس کی آج مسلم دشمن الحادی قوتوں کی مسلم دنیا کو منتشر کر کے کمزور کرنے کی سازشوں کے توڑ کے لیئے اشد ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ اسرائیل کے مسلم دنیا کو کمزور کرنے کے عزائم تو اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے جو امریکی آشیرباد اور اس کی عملی حربی سپورٹ کے بل بوتے پر گذشتہ دوسال سے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کے قتل عام اور غزہ میں عملاً ان کا وجود مٹانے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہا ہے۔ اب تک ایک لاکھ سے زائد فلسطینی عوام خواتین اور بچوں سمیت اسرائیلی بربریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ان کی بستیوں کی بستیاں، سکول، ہسپتال اور مارکیٹیں تک فلسطینیوں کے قبرستان میں تبدیل ہوچکی ہیں اور اب اسرائیل غزہ سے فلسطینیوں کے مکمل خاتمے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے جو درحقیقت امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ کا منصوبہ ہے۔ مسلم دنیا کے لیئے سب سے زیادہ افسوسناک یہ صورت حال ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے حق میں مسلم دنیا کی جانب سے اٹھنے والی ہر آواز بند کرنے کے منصوبہ پر عملدرامد کا بھی آغاز کر چکا ہے اور غزہ والی بربریت کے ساتھ ساتھ وہ شام، لنبان، مصر، ایران، اردن اور اب قطر پر بھی حملہ آور ہو چکا ہے۔ دنیا بھر میں اسرائیلی بربریت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں مگر اسرائیل کے عملی طور پر ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں جو فی الحقیقت علاقائی اور عالمی امن کی تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ قطر پر حملے کے بعد مسلم دنیا میں بجا طور پر تشویش کی لہر دوڑی جسے پاکستان کے خلاف بھارتی توسیع پسندانہ عزائم بھی مسلم دنیا کی قوت توڑنے کی سازش نظر آئے ہیں تو مسلم دنیا میں بیداری اور الحادی قوتوں کے خلاف متحد ہوکر مشترکہ دفاعی حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ تین روز قبل منعقد ہونے والی عرب اسلامی سربراہی کانفرنس میں مسلم قیادتوں نے مسلم دنیا کے دفاع کی مشترکہ حکمت عملی ہی طے کی جبکہ اب پاک سعودی قیادتوں نے تاریخی دفاعی معاہدہ کر کے درحقیقت الحادی قوتوں کو ہی ٹھوس پیغام دیا ہے کہ ان کی ہر سازش ناکام بنانے کے لیئے آج مسلم دنیا متحد ہے اور کسی بھی جارحیت کے خلاف اپنے دفاعی، حربی وسائل مشترکہ طور پر بروئے کار لائے گی۔ اس تناظر میں پاک سعودی دفاعی معاہدہ علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی بھی ضمانت بنے گا۔
