سیلابی خطرات سے نمٹنے کے لیے مربوط آبی ذخیرہ، ابتدائی انتباہ اور مقامی صلاحیت سازی ناگزیر ہے: ماہرین

ماحولیاتی تبدیلی کے باعث شدت اختیار کرتی انتہاؤں کے سامنے پاکستان کی بڑھتی ہوئی کمزوری ہر سطح پر فوری اور مربوط اقدامات کی متقاضی ہے، کیونکہ سیلابوں کی بڑھتی ہوئی تکرار، درجہ حرارت میں اضافہ اور پانی کے معیار کی بگڑتی ہوئی صورتحال ملک کی غذائی سلامتی، آبی وسائل، حیاتیاتی تنوع اور روزگار کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ اگرچہ قومی مباحثوں میں زیادہ توجہ سیلابوں پر مرکوز رہی ہے، لیکن درجہ حرارت میں اضافہ، جنگلات کے سکڑتے رقبے اور کمزور حکمرانی کی صلاحیتیں بھی اتنے ہی بڑے خطرات ہیں جو مجموعی لچک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس صورتحال سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ پالیسیوں پر عملدرآمد، بروقت حکمرانی، قومی آبی ذخائر کی صلاحیت میں اضافہ، پائیدار آبی انتظام، ابتدائی انتباہی نظام میں بہتری اور مقامی سطح پر صلاحیت سازی لازمی ہے تاکہ قدرتی آفات کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ یہ مشاہدات ماحولیاتی اور پائیداری کے ماہرین نے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز [آئی پی ایس]، اسلام آباد کے زیراہتمام منعقدہ گول میز اجلاس”پاکستان میں سیلاب: لچک کی تعمیر اور آئندہ کے لیے بصیرت“میں پیش کیے۔ اجلاس میں شامل ماہرین میں ڈاکٹر پرویز عامر (ماہر ماحولیاتی تبدیلی)، ڈاکٹر غلام رسول (مشیر، چین-پاکستان جوائنٹ ریسرچ سینٹر برائے ارضی سائنسز)، ڈاکٹر سید طاہر حجازی (سابق رکن منصوبہ بندی کمیشن)، سید اکرام الحق (ماہر آفات سے نمٹنے کی صلاحیت سازی)، یاسر ریاض (ماہر سیلابی بحالی)، ڈاکٹر عمران ہاشمی (ایسوسی ایٹ پروفیسر، نمل یونیورسٹی)، ڈاکٹر مجتبیٰ حسن (سربراہ محکمہ خلائی سائنسز، انسٹیٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی) اور الطاف شیر (صدر، الخدمت فاؤنڈیشن اسلام آباد) شامل تھے۔ اجلاس کی صدارت مرزا حامد حسن (سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی) نے کی جبکہ نظامت امینہ سہیل (ماہر قانون برائے شعبہِ توانائی) نے انجام دی۔ ادارے کے چیئرمین خالد رحمٰن بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ڈاکٹر پرویز عامر نے کہا کہ پاکستان میں ماحولیاتی انتہائیں صرف سیلاب تک محدود نہیں بلکہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور کم ہوتی سردیاں خوراک، پانی اور حیاتیاتی تنوع کے لیے خطرہ ہیں۔ انہوں نے ملک میں جنگلاتی رقبہ جو ایک فیصد سے بھی کم رہ گیا ہے کو کم از کم 40 فیصد تک بڑھانے پر زور دیا۔ انہوں نے زراعت اور سیلابی نظم کے لیے مون سون کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی خاطر نئے ڈیموں اور صحراؤں کی طرف پانی منتقل کرنے کے منصوبوں پر بھی زور دیا۔ ڈاکٹر غلام رسول نے کہا کہ گزشتہ دہائیوں میں ماحولیاتی تبدیلی نے گرمی کی لہروں اور سیلابوں کی شدت کو بڑھایا ہے۔ انہوں نے افقی کے بجائے عمودی شہری توسیع، قدرتی آبی راستوں کی صفائی اور شہری منصوبہ بندی میں موسمیاتی پیش گوئیوں کو شامل کرنے کی سفارش کی۔ سید اکرم الحق نے اس بات پر زور دیا کہ انسانی صلاحیت کو عالمی بہترین طرزعمل کے مطابق ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانی کے اصول ایسے ہونے چاہئیں جو کمیونٹیز کو آفات میں اولین ردعمل دینے والا بنائیں۔ انہوں نے سیاحتی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کو ایسا اثاثہ قرار دیا جو آفات کے وقت بھی کارآمد ہو سکتا ہے، اور آفات سے نمٹنے کی حکمت عملیوں میں ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کے انضمام کی سفارش کی۔ الطاف شیر نے شمالی علاقوں میں حالیہ تباہ کن گلیشیائی جھیل پھٹنے کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کس طرح بڑے پتھر بہہ کر بستیاں تباہ کر گئے۔ ڈاکٹر طاہر حجازی نے کہا کہ لچک پر مبنی منصوبے صرف سیلابوں سے بچاؤ تک محدود نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ان کے فوائد بھی حاصل کرنے چاہئیں۔ انہوں نے ماہی گیری اور رن آف ریور ہائیڈرو پاور کو ایسی غیر استعمال شدہ مواقع قرار دیا جو سیلابی پانی سے جڑے ہیں۔ ڈاکٹر عمران ہاشمی نے پانی کے بگڑتے معیار کے صحت پر سنگین اثرات کی نشاندہی کرتے ہوئے مائیکرو پلاسٹکس اور جراثیم کے خطرات کو اجاگر کیا اور فضلہ و گندے پانی کے انتظام کے لیے مقامی حل پر زور دیا تاکہ غیر ملکی امداد پر انحصار کم ہو۔ یاسر ریاض نے خبردار کیا کہ جو سیلاب پہلے صدی میں ایک بار آتے تھے وہ اب کہیں زیادہ کثرت سے رونما ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی سے زیادہ نقصان کمزور مقامی صلاحیت کی وجہ سے ہوتا ہے، اس لیے انفرادی، مقامی اور ادارہ جاتی سطح پر لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر مجتبیٰ حسن نے کہا کہ جدید سائنسی تحقیق کو اکثر آفات سے نمٹنے کی پالیسیوں اور ابتدائی انتباہی نظام میں شامل نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے قومی تیاری کی حکمت عملیوں میں موسمیاتی اور فضائی سائنس کو شامل کرنے پر زور دیا۔ حامدحسن نے پاکستان کے بیرونی انتباہات پر انحصار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت بعض اوقات بغیر اطلاع دیے پانی چھوڑ دیتا ہے، جو سندھ طاس معاہدے کی دفعات کے خلاف ہے۔ انہوں نے مقامی پیش گوئی اور نظم و نسق کی صلاحیت پیدا کرنے پر زور دیا اور کہا کہ اگر سیلاب کو فعال طور پر سنبھالا جائے تو اس کے فوائد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ بحث کو سمیٹتے ہوئے خالد رحمان نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب ماحولیاتی تبدیلی اور انسانی عوامل دونوں کی پیداوار ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے مربوط حل ناگزیر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صلاحیت سازی کو نچلی سطح سے قومی سطح تک پھیلانا ہوگا تاکہ قلیل، وسط اور طویل المدتی حکمت عملیوں کے ذریعے عوام اور وسائل کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔