باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری
دل کی آواز یہی ہے: “یہ کشتی اگر ٹوٹ جائے تو پھر واپس جوڑنا بہت مشکل ہے — بچاؤ ورنہ صبر کا پیالہ ختم ہو جائے گا۔” یہ صدا بظاہر دردِ فرد کی نہیں، بلکہ پوری قوم کے سینے میں چھپی ہوئی کراہت ہے۔ جب ہر روز دفاتر، فیکٹریوں، کھیتوں اور بازاروں سے زندگی کا چراغ بجھتا ہے تو زبان خاموش رہ نہیں سکتی۔ یہ وہ لمحہ ہے جب فرد کا درد قومی نوحہ بن جاتا ہے، اور آنکھوں کے آنسو اجتماعی بوجھ میں بدل جاتے ہیں۔
ہماری معیشت کی موت کے پیغامات اب کسی اشارے کے محتاج نہیں رہے۔ وہ کھلے عام ہماری منڈیوں، فیکٹریوں اور دفاتر پر لکھے جا چکے ہیں۔ مائیکروسافٹ کا جولائی 2025 میں بند ہونا، گل احمد کا ٹیکسٹائل ایکسپورٹ بزنس بند کر دینا، کار سروس کریم کا جولائی 2025 میں ختم ہو جانا— یہ صرف تین نام نہیں، بلکہ ان ہزاروں چھوٹی بڑی کمپنیوں کی کہانی ہیں جو یا تو ملک چھوڑ چکی ہیں یا موت و حیات کی کشمکش میں ہیں۔
بڑی عالمی کمپنیاں یکے بعد دیگرے اپنے بوریا بستر سمیٹ رہی ہیں۔ پراکٹر اینڈ گیمبل نے 2024 میں صابن پروڈکشن ختم کی، اور اگلے سال اپنا کاروبار ٹھپ کرنے کا اعلان کر دیا۔ سیمنز ٹیکنالوجیز 2023 میں ختم ہوئی، بئیر نے جون 2023 میں کاروبار بند کیا، شیل پاکستان نے جون 2023 میں اپنے 77 فیصد حصص فروخت کیے، ٹوٹل پارکو نے جون میں کاروبار ختم کیا، اور ٹیلی نار نے دسمبر 2023 میں اپنا کاروبار فروخت کر دیا۔ سانفوئی اور فائزر نے اپنی پروڈکشن بند کر دی، واوا کارز اور ایس ڈبلیو وی ایل اپنے دروازے بند کر چکے ہیں۔
یہ اعداد و شمار ٹھنڈے ضرور ہیں، مگر ان کے پیچھے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں گرم جلتی ہیں۔ ہر بند فیکٹری کے پیچھے ایک گھر کا مستقبل، ایک بچے کی تعلیم، ایک بیوی کا گزارہ اور ایک بزرگ کی دوا تھی۔ جب ہنڈا، ملت ٹریکٹرز، سوزوکی موٹرز اور نشاط چونیاں جیسی بڑی کمپنیاں بار بار اپنی پروڈکشن بند کرنے پر مجبور ہوتی ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ ملکی پالیسیوں میں کوئی بنیادی اور سنگین خرابی ہے۔ انڈس موٹرز، امریلی سٹیل، اور جی ایس کے کی فیکٹریوں کا بار بار بند رہنا، اور ٹرک ان، سینڈوسو، ریٹالیو کا کاروبار ختم کر دینا، سرمایہ کار کے اعتماد کی موت کا اعلان ہے۔
اس بحران کا سب سے بڑا بوجھ زراعت اور صنعت پر پڑا ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی پروڈکشن پچاس فیصد کم ہوئی، جس سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہوئے۔ دوسری طرف، ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی، یعنی گندم کے کسان کو دو سال مسلسل امدادی قیمت نہیں ملی۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، یہ معیشت کے وہ زخم ہیں جو ناسور بن چکے ہیں۔ آج فیصل آباد کی سڑکوں پر وہ لوگ کھڑے ہیں جو کبھی فیکٹریوں میں کام کرتے تھے۔ یہ نوحہ ہے — ایک بہت بڑا نوحۂ وطن۔ امیگریشن نے ہمارے معاشرے کو خالی کر دیا ہے۔ پڑھا لکھا نوجوان ملک چھوڑ کر بہتر زندگی کی تلاش میں در بدر ہے — یہ کونسی کامیابی ہے؟ بزرگوں نے کہا تھا کہ “ہم نے طوفان سے کشتی نکال کر رکھی ہے، میرے بچوں اسے سنبھال کر رکھنا” — مگر آج وہی کشتی نیچے سے سوراخ ہو رہی ہے۔
ہماری حکومتیں، چاہے سول ہوں یا عسکری، شاید ان اعداد کو گنواتی رہیں گی، مگر یہ حقیقتیں عوام کے منہ پر طومار کی طرح پڑی ہیں۔ قرضوں پر انحصار، جو آپ کے بقول “قرض کی میں لے کے پیتے ہیں” والی سوچ کا نتیجہ ہے، نے ملک کو مزید دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ یہ کوئی محاورہ نہیں، یہ ہماری آئینی ذمہ داریوں اور معیشت کا المیہ ہے۔ فرق تب ہی ممکن ہے جب وہ اپنے اختیار کا استعمال لوگوں کے فائدے میں کریں، نہ کہ اپنے ذاتی مفادات اور شوق میں۔
معاشی بحران کے ساتھ ساتھ، ملک میں ظلم، بے انصافی اور بے حسی کا ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے۔ حکومتیں عوام کے دکھوں کو دبا دیتی ہیں جب کہیں کوئی آواز اٹھتی ہے تو اسے خاموش کر دیا جاتا ہے؛ یہی وہ طریقہ ہے جس نے عوام میں مایوسی اور نفرت کو جنم دیا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جب انصاف کے بجائے عسکری قوت کا اظہار مستقل حکمتِ عملی بن جائے تو قوم کا سرمایہ کیسے ختم ہوتا ہے۔ زمان پارک والا آپریشن، جس نے انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑا، اور اسی طرزِ عمل کی بازگشت آج کشمیر میں سنائی دیتی ہے۔ ظلم کا تسلسل اور بے دردی کی روایت جب دوبارہ جنم لیتی ہے تو دنیا اسے مکافات عمل کہتی ہے۔
جب ایک شخص ظل شاہ جیسی نفرت انگیز حرکتوں کا نشانہ بنتا ہے، تو یہ صرف ایک واقعہ نہیں؛ یہ نظام کی خامی ہے۔ عوام کے جذبات کو پیار اور محبت سے پرسکون کرنا آسان نہیں، مگر ظلم کے اس طریقے سے تو کبھی بھی امن قائم نہیں ہوا۔ یہ وہ طریقہ ہے جس میں ادارے اپنے عہدے اور نام کے پیچھے، انصاف اور شفافیت کی صبح کو مار دیتے ہیں۔
اٹھ فروری کے انتخابات اور ان کے بعد جو “جوائنٹ ایکشن کمیٹی” کے نمائندے سامنے آئے، اُن میں وہ لوگ بیٹھے ہیں جن کے ہاتھ سوالات کے دائرے میں ہیں۔ فارم 47 جیسے معاملات قوم کے اعتبار پر براہ راست وار ہیں۔ اگر مذاکرات کا منہ ہی جھکا ہوا ہو تو پھر الزام کس پر لگائیں؟ عوام کو دبا کر بات کرنا لعنت ہے، اور ایسے لوگوں کو جو کشمیریوں کے لیے بات کرنے گئے ہیں مگر خود رشوت، چوری یا سفارش کے دائرے میں آ چکے ہوں، ان پر سوال اٹھانا ہر منصف شہری کا فرض ہے۔ جب لیڈرشپ خود سفارش اور بدعنوانی کی مثال بن جائے تو وہ نوجوان نسل سے کیسے محنت اور ایمانداری کی توقع رکھ سکتی ہے؟
کیا یہ وہی قوم نہیں جو مشکل وقت میں اپنے عظیم بزرگوں کے کہے ہوئے اصولوں پر لبیک کہتی تھی؟ آج وہی کشمیری جو اپنے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے جسم کی داستان سناتے ہیں، انہیں امن کا درس دیا جاتا ہے۔ جب کشمیریوں نے “ٹمبر کا ڈنڈا” اٹھایا تو انہیں صرف طاقت کے ذریعے دبایا گیا۔
کشمیری بھائیو! اگر تم نے “ٹمبر کا ڈنڈا” اٹھایا ہے تو سمجھ لو کہ یہ دوا نہیں، یہ صرف درد کا اظہار ہے۔ ہم ہمیشہ تمہارے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے رہے ہیں — آج بھی اپیل یہی ہے کہ ہمیں بچا لو، ہمیں وہ انسانیت سکھا دو جسے ہم نے بھول کر طاقت کا رخ اپنایا۔ ہمیں یاد دلاؤ کہ طاقت کے بجائے رشتوں اور بات چیت کی قوت زیادہ دیرپا ہے۔ ظلم کا جواب ظلم ہی پر مبنی ہے — مگر اس میں آخر کب تک استحکام ہوگا؟
میں اس کالم کے ذریعے ایک فریاد کر رہا ہوں: خدا کے لیے پاکستان کو بخش دو۔ اس کا مطلب منافقت، لویات، بدعنوانی، ظلم اور سیاسی خودغرضی کو معاف کرنے کا نہیں؛ بلکہ یہ ایک التجا ہے کہ اگر تم واقعی اس ملک سے محبت کرتے ہو تو اسے بچانے کے لیے خود کو بدل دو۔ اپنی پالیسیاں، اپنے طریقِ حکمرانی اور اپنی ترجیحات بدل دو۔
جتنے بھی ادارے، کمپنیاں اور فیکٹریاں ہم سے دور ہو چکی ہیں، وہ شاید واپس نہ آئیں مگر ہمیں جو بچانا ہے وہ انسان ہیں — کسان، مزدور، پڑھا لکھا نوجوان، عورتیں اور بزرگ۔ کسانوں کو ان کی فصلوں کی مناسب قیمت دو، صنعت کو سہولت دو تاکہ مزید کارخانے بند نہ ہوں، انصاف کا نظام شفاف کرو، اور سیاسی اختلافات کو آہنگی سے حل کرو۔
پاکستان کی کشتی اگر بچانی ہے تو ہر شہری کو، ہر ادارے کو، ہر رہنما کو یہ سوچنا ہوگا کہ قوم کی باگ ڈور صرف اقتدار حاصل کرنے کا نام نہیں، بلکہ اس کا مطلب ہے لوگوں کے حالات میں بہتری لانا۔ قرضے لینے سے پہلے سوچو، پروگرام چلاتے وقت عوام کو سامنے رکھو، ظلم کے خلاف آواز اٹھاؤ، اور انصاف کو غالب کرو۔ یہ کالم ایک نوحہ بھی ہے اور ایک اپیل بھی — ایک درد بھرا خط بھی ہے اور ایک امید کی شمع بھی۔
خدا ہمیں ہدایت دے اور ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم اپنی کشتی کو دوبارہ ٹھیک کر سکیں۔ اور اگر تم بھی اس دھڑکتی قوم کا حصہ ہو تو آج اپنی جگہ اٹھو، بولو اور عمل کرو — ورنہ کل بہت دیر ہو جائے گی۔