تحریر: انجینئر افتخار چودھری
تاریخ کے صفحات میں کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جو صرف زمانے کو نہیں بلکہ زمانے کی سمت کو بدل دیتے ہیں۔ وہ خواب دیکھتے ہیں، اور آنے والی نسلیں ان خوابوں کو تعبیر دیتی ہیں۔ ایسے ہی مردِ مومن تھے چوہدری رحمت علیؒ اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ— دو مفکر، دو مجاہد، جن کی فکر نے پاکستان کے نظریاتی وجود کی بنیاد رکھی۔ اور پھر قائداعظم محمد علی جناحؒ اور ان کے رفقاء نے اسی فکر کو عملی صورت دے کر دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک ابھارا، ایک ایسا وطن جو صرف جغرافیہ نہیں بلکہ ایمان کا مظہر تھا۔
چوہدری رحمت علیؒ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے صرف پاکستان کا نام نہیں تخلیق کیا بلکہ اس کا فکری نظریہ بھی سب سے پہلے پیش کیا۔ یہ 1915 کا زمانہ تھا جب وہ انگلستان میں نہیں بلکہ بزمِ شبلی، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں موجود تھے۔ اس وقت برصغیر کے سیاسی افق پر کانگریس اور ہندو مسلم اتحاد کے نعرے گونج رہے تھے، لیکن رحمت علیؒ نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا:
> “ہندو اور مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکتے۔”
یہ وہ بات تھی جو آنے والے وقت نے حرف بہ حرف درست ثابت کی۔
انہوں نے نہ صرف دو قوموں کی فکری علیحدگی کی بنیاد رکھی بلکہ یہ انتباہ بھی کیا کہ:
> “دریاؤں کے سوتے پاکستان میں ہونے چاہئیں، ورنہ وہ تمہارا پانی بند کر دیں گے اور تمہارے معبد مسمار کر دیں گے۔”
آج جب ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت نے پانی پر قبضے کی کوششیں کیں اور ہماری سرزمین کو قحط و خشکی کے خطرات سے دوچار کیا، تو احساس ہوتا ہے کہ رحمت علیؒ صرف سیاستدان نہیں، دوراندیش مفکر تھے۔ انہوں نے وہ دیکھ لیا تھا جو آنے والے صدیوں نے ثابت کیا۔
اسی زمانے میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنے فکری سفر کا آغاز کیا۔ ان کی نگاہ بھی وہی تھی جو رحمت علیؒ کی تھی—اسلام کی بنیاد پر امت کی وحدت۔
مولانا مودودیؒ نے اپنی تاریخی کتاب “مسئلۂ قومیت” میں یہ نکتہ پیش کیا کہ:
> “اسلام کی بنیاد وطن، نسل یا زبان نہیں بلکہ عقیدہ اور ایمان ہے۔”
یہی فکر تھی جو بعد میں نظریۂ پاکستان کی علمی و دینی بنیاد بنی۔ مولانا مودودیؒ نے کہا کہ اگر مسلمان اپنی شناخت زمین سے جوڑیں گے تو وہ ہندوؤں میں ضم ہو جائیں گے، مگر اگر وہ اپنی پہچان ایمان سے جوڑیں گے تو ایک الگ قوم کی صورت میں ابھریں گے۔
یوں سمجھ لیجیے کہ چوہدری رحمت علیؒ نے سیاسی طور پر الگ ریاست کا خاکہ پیش کیا، اور مولانا مودودیؒ نے فکری و دینی طور پر اس کے جواز کی وضاحت کی۔
یہ دونوں دراصل ایک ہی فکری زنجیر کے دو حلقے تھے۔
رحمت علیؒ نے زمین پر لکیر کھینچی، اور مودودیؒ نے اس لکیر کو ایمان کے رنگ سے بھر دیا۔
پھر تاریخ نے وہ منظر دیکھا جب ایک اور عظیم شخصیت نے اس نظریے کو حقیقت میں ڈھال دیا — وہ تھے قائداعظم محمد علی جناحؒ۔
اگر رحمت علیؒ اور مودودیؒ کو ہم مفکرین کہیں تو قائداعظم اور ان کے رفقاء کو انجینیئرز کہنا بجا ہوگا۔
یہی تو قوموں کی تعمیر کا فلسفہ ہے —
ایک مفکر نظریہ پیش کرتا ہے،
اور دوسرا اسے حقیقت میں ڈھال دیتا ہے۔
ل
بالکل ایسے ہی جیسے ایک سائنسدان کسی دریافت کا نظریہ پیش کرتا ہے اور ایک انجینیئر اس کو عملی شکل دیتا ہے۔
چوہدری رحمت علیؒ اور مولانا مودودیؒ نظریہ کے خالق تھے، اور قائداعظم اس کے معمار۔
یہ تینوں مل کر ایک ایسا فکری اور عملی تسلسل بناتے ہیں جس نے برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کو ایک نئی شناخت عطا کی۔
آج کے دور میں افسوس یہ ہے کہ ہم نے اپنے اصل فکری معماروں کو بھلا دیا ہے۔
اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ نظریۂ پاکستان صرف 1940 کی قراردادِ لاہور سے شروع ہوا، حالانکہ اس کی جڑیں 1915 میں لاہور کی بزم شبلی میں پیوست ہیں۔
چوہدری رحمت علیؒ نے جس دن یہ کہا کہ مسلمان اور ہندو اکٹھے نہیں رہ سکتے، دراصل وہی دن نظریۂ پاکستان کی پیدائش کا دن تھا۔
اور جب مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب مسئلۂ قومیت میں یہ لکھا کہ اسلام میں قوم کی بنیاد ایمان ہے، تو یہ بات نظریۂ پاکستان کی روح بن گئی۔
دونوں مفکر ایک ہی سمت میں سوچ رہے تھے۔
ان کے نزدیک قوم، زمین یا زبان کی بنیاد پر نہیں بلکہ کلمۂ طیبہ کے رشتے سے بنتی ہے۔
یہی وہ اسلامی فکر تھی جس نے مسلمانوں کو ایک امت کی صورت میں متحد کیا اور انہیں علیحدہ ریاست کے لیے تیار کیا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ
> “چوہدری رحمت علیؒ نے پاکستان کا نام دیا،
مولانا مودودیؒ نے اس کی فکری بنیاد رکھی،
اور قائداعظم نے اس خواب کو حقیقت کا روپ دیا۔”
اسی لیے پاکستان محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں، بلکہ ایک عقیدہ، ایک نظریہ، اور ایک وعدہ ہے۔
یہ وعدہ اللہ سے کیا گیا کہ ہم اسلام کے اصولوں پر مبنی ایک نظام قائم کریں گے۔
بدقسمتی سے، ہم نے اپنے وعدے کو بھلا دیا ہے۔
ہم نے اس نظریے کو سیاست کی نذر کر دیا، جسے ایمان کا عنوان ہونا چاہیے تھا۔
جب میں پروفیسر زید بن عمر جیسے اہلِ علم کی تحریریں پڑھتا ہوں تو مجھے یہی فکر دوبارہ زندہ محسوس ہوتی ہے۔
ان کے الفاظ میں وہی سچائی، وہی جرات، اور وہی نظریاتی حرارت دکھائی دیتی ہے جو رحمت علیؒ اور مودودیؒ کی تحریروں میں تھی۔
ان کی کتاب دراصل اسی فکری تسلسل کی تازہ سانس ہے — ایک یاد دہانی کہ پاکستان محض زمین کا نام نہیں، یہ ایمان کی مٹی سے بنی ایک فکری ریاست ہے۔
اور پھر جب اس کتاب پر جسٹس نظیر احمد غازی نے تبصرہ کیا تو ایسا لگا جیسے کسی نے الفاظ کے اندر روح پھونک دی ہو۔
غازی صاحب نے اپنے تبصرے میں جو کہا، وہ محض رائے نہیں بلکہ ایک اعتراف ہے کہ یہ کتاب پاکستان کی فکری شناخت کا تسلسل ہے۔
ان کے الفاظ نرم بھی ہیں اور مضبوط بھی، جیسے علم کے ساتھ عشق نے ہاتھ ملا لیا ہو۔
میں نے تبصرہ پڑھ کر دل میں کہا:
“یہ وہ لوگ ہیں جو کتاب کو نہیں، اس کے پیچھے موجود ایمان کو پڑھتے ہیں۔”
واقعی، بعض اوقات تبصرہ خود کتاب کا حصہ بن جاتا ہے، اور غازی صاحب کا تبصرہ بھی ایسا ہی ہے —
جس نے کتاب کو نئی زندگی عطا کی۔
آخر میں میں یہی کہنا چاہوں گا کہ ہمیں اپنی فکری جڑوں کی طرف لوٹنا ہوگا۔
پاکستان کا وجود حادثہ نہیں، ایک نظریے کا نتیجہ ہے۔
اور یہ نظریہ کسی مفروضے پر نہیں بلکہ اسلامی فکر پر مبنی ہے —
وہی فکر جو مولانا مودودیؒ نے بیان کی،
وہی خواب جو چوہدری رحمت علیؒ نے دیکھا،
اور وہی عمل جو قائداعظمؒ نے کر دکھایا۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو یہ بتائیں کہ پاکستان کے پیچھے صرف ایک سیاسی جدوجہد نہیں، بلکہ ایمان کی جدوجہد تھی۔
یہ ملک ایک نظریاتی ریاست ہے، اور جب تک ہم اس نظریے سے جڑے رہیں گے، ہم زندہ رہیں گے۔
یہ کالم میری طرف سے ان تمام مفکرین کے نام —
جنہوں نے خواب دیکھا، سوچا، لکھا، سمجھایا،
اور پھر کسی نے ان خوابوں کو تعبیر میں بدل دیا۔
یہی تسلسل، یہی ایمان، یہی پاکستان ہے