ٹیکسٹ بک بورڈ حکام کے مطابق پنجاب کے سکولوں میں پڑھائی جانیوالی دس ہزار کتابوں کو قبضہ میں لیاگیا جن میں سے سو کتابوں کا مسودہ غیر منظور شدہ اور قابل اعتراض ہونے پر یہ کتابیں پڑھانے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ان کا موقف ہے کہ ان کتابوں میں تاریخ ،مذہب، معلومات اور جغرافیہ سے متعلق سنگین غلطیاں موجود ہیں ۔اس معاملے پر پرائیویٹ سکولز فیڈریشن پاکستان نے حکومتی اقدام کی حمایت کی لیکن انہوں نے سوال اٹھایاہے کہ اگر کتابوں میں مواد قابل اعتراض تھا تو اتنے سالوں تک ایکشن کیوں نہیں ہوا؟ دوسرایہ کہ اگر ان میں مواد دو قومی نظریہ سے متصادم ہے تو دیگر صوبوں میں کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟پنجاب کریکلم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر(ایم ڈی)رائے منظور نے کہاکہ پی سی ٹی بی نے صوبے بھر کے انٹر تک ڈگری دینے والے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی کتابوں کی چھپائی کے لیے این او سی لازمی قراردے رکھاہے۔قانون کے مطابق جو بورڈ کی منظوری کے بغیر مواد اور تصاویر چھاپے گا اس کے خلاف کارروائی لازمی ہے۔لہذا شکایات موصول ہونے پر معلوم ہواکہ پاک کیمبرج پبلشنگ اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سمیت درجنوں پبلشرز کی کتابیں بغیر بورڈ کی منظوری لیے چھاپ کر پڑھائی جارہی ہیں۔رائے منظور کے مطابق ٹیکسٹ بک بورڈ نے صوبے بھر میں پڑھائی جانے والی دس ہزار کتابوں میں سے پانچ سوکے نمونوں کا جائزہ لیا تو ثابت ہوا کہ ان میں سے 100کتابوں میں،قائد اعظم محمد علی جناح،سرسید احمد خان ودیگر شخصیات اورپاکستانی نقشے سے متعلق غلط معلومات درج کی گئی ہیں انہوں نے کہامکمل چھان بین کے بعد ان سو کتابوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے چار سو درست قرارپائیں جب کہ باقی ساڑھے نو ہزار کے متن اور ان میں چھاپی گئی تصاویر کا جائزہ لیا جارہاہے۔کتابیں ملک بھر میں پڑھائی جارہی ہیں کارروائی صرف پنجاب میں کیوں؟ رائے منظور نے کہا کہ وہ صرف پنجاب میں کارروائی کا اختیار رکھتے ہیں اور کچھ عرصہ پہلے ان کی تعیناتی ہوئی تو انہوں نے کارروائی شروع کر دی۔ دوسرے صوبوں اور وفاق کا علیحدہ نظام ہے وہ اپنے مطابق کارروائی کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
