دو سوال ہیں


ملک میں ان دنوں کوڈ19 کی تیسری لہر کی شدت کا سامنا ہے، اس بحرانی کیفیت سی کیسے نمٹنا ہے حکومت اور ملک کی تجارتی تنظیموں میں یک سوئی نظر نہیں آرہی، جب کوڈ19 گزشتہ سال پہلی بار آیا تو تب بھی یہی صورت حال تھی، آج ایک سال گزر چکا حکومت اور تجارتی تنظیمیں مل کر کسی متفقہ فیصلے پر نہیں پہنچ سکیں، کہ ایسی بحرانی کیفیت میں کرنا کیا ہے؟ ابھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس لاک ڈاؤن سے 15 سو مارکیٹوں میں 42 ارب روپے کا نقصان ہوا، باالکل ہوا ہوگا، ہم اسدعوی کو چیلنج نہیں کرتے تاہم سوال یہ ہے اگر یہ نقصان ہوا ہے تو پھر جن پندرہ سو مارکیٹیوں میں ہونے والے اس نقصان کی تفصیلات دی گئی ہیں دو سال قبل کوڈ سے پہلے یہاں سے ملک کو کتنا ٹیکس دیا گیا، نقصان کا یہ تخمینہ تجارتی تنظیموں کی جانب سے ہی لگایا گیا ہے، بس اتنا پتہ چل جائے کہ یہاں سے کوڈ سے پہلے حکومت کو ٹیکس کتنا ملا؟
دوسرا سوال
بحرانی کیفیت میں ملک میں کام کرنے والی این جی اوز بھی سماجی خدمات کے لیے میدان میں اتر آتی ہیں، اور ان کی جانب سے مسلسل یہ بات بتائی جاتی ہے کہ فلاں علاقے میں اتنی مالیت کی خوراک، ادویات، کپڑے اور دیگر اشیاء ضرورت مندوں میں تقسیم کی گئیں ہیں، گزشتہ سال کوڈ بحران میں متعدد این جی اوز کی جانب سے اربوں روپے کی اشیاء، ادویات، خوراک اور دیگر مد میں تقسیم کیے جانے کی خبریں میڈیا کی زینت بنیں، یہ سب کچھ این جی اوز کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں بتایا گیا تھا، مگر یہ کیوں نہیں بتایا جاتا ہے کہ این جی اوز کو عطیات کی صورت میں فنڈز کتنے ملے اور کہاں سے ملے اس کی تفصیلات کیوں میڈیا کے لیے جاری نہیں کی جاتیں