طالبان نے افغانستان پر اپنی گرفت تو مضبوط کر لی ہے لیکن کوئی قانونی اور بااختیار حکومت نہ ہونے کے باعث دارالحکومت کابل میں خوف، دہشت، افراتفری اور بےیقینی کی فضا موجود ہے اور ایسا لگتا ہے کہ صورتحال معمول پر آنے میں مزید کچھ وقت لگے گا۔ جنگجو صدارتی محل میں داخل ہو چکے ہیں لیکن اُن کی اعلیٰ ترین قیادت اقتدار سنبھالنے کیلئے نہیں پہنچی۔ طالبان کے ایک رہنما مولوی عبدالحق حماد نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ شکست خوردہ صدر اشرف غنی کی ٹیم اور طالبان میں مستقبل کے متفقہ نظام پر مذاکرات جاری ہیں۔ جونہی اتفاق رائے ہو جائے گا، نئی حکومت تشکیل پائے گی۔ امیر المومنین کا انتخاب ہو گا اور ملک کا نیا سیاسی ڈھانچہ قائم ہو جائے گا۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے بھی تمام اسٹیک ہولڈرز کو یہی صائب اور سنجیدہ مشورہ دیا تھا کہ افغانستان کے تمام لسانی اور سیاسی گروہوں کی نمائندگی کے ساتھ جامع سیاسی تصفیہ کیلئے اتفاق رائے پیدا کیا جائے جو افغان مسئلے کا واحد حل ہے۔ پیر کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ افغانستان میں متفقہ سیاسی نظام لایا جائے اور قانون کی حکمرانی کے احترام اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے کہ کسی بھی دہشت گرد تنظیم یا گروہ کو افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں کرنے دی جائے گی۔ اجلاس میں، جس میں اہم وفاقی وزرا، سروسز چیفس اور دیگر اعلیٰ حکام شریک تھے، اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستان افغاانستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا اور ضروری ہے کہ دوسرے ممالک بھی اس اصول پر عمل پیرا ہوں۔ یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان اس معاملے میں عالمی برادری کے ساتھ تعاون اور کام جاری رکھے گا۔ اس بات پر اطمینان ظاہر کیا گیا کہ کابل میں اب تک تشدد کا کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہونے دیا گیا۔ ادھر طالبان لیڈر ملا عبدالغنی برادر اور ترجمان سہیل شاہین نے اپنے طرز حکومت کے بارے میں عالمی برادری کے تحفظات دور کرنے کا یقین دلایا ہے جس سے طالبان حکومت کو دنیاسے تسلیم کرانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے افغان عوام سے کہا کہ وہ اعتماد سے معمول کی زندگی کا آغاز کریں۔ امریکی صدر بائیڈن نے کابل پر طالبان کے قبضے کی ذمہ داری اشرف غنی پر ڈالی ہے جو طالبان کے ساتھ سیاسی سمجھوتے میں ناکام رہے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ امریکہ نے اربوں ڈالر خرچ کر کے افغان فوج کی تربیت کی اور ہر طرح کا اسلحہ بھی فراہم کیا لیکن وقت آنے پر اس نے لڑنے سے انکار کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ افغان فورسز کی تنخواہ بھی امریکہ دیتا رہا ۔ طالبان کی فتح سے سب سے زیادہ تکلیف بھارت کو پہنچی جہاں سکوت مرگ طاری ہے۔ بھارت اشرف غنی کے دور میں افغانستان کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال کرتا رہا ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ طالبان اسے ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ بھارت نے کھربوں روپے کی افغانستان میں سرمایہ کاری کر رکھی ہےجس کے ڈوبنے کا خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ افغان مسئلے کے حوالے سے یہ امر خوش آئند ہے کہ ختم ہونے والی افغان حکومت کے کابل میں رہ جانے والے لیڈروں اور طالبان رہنمائوں میں ملک کے مستقبل کیلئے ایک متفقہ اور قابل عمل سیاسی نظام پر اتفاق رائے کیلئے مذاکرات جاری ہیں۔ اگر ایسا نظام تشکیل پا گیا اور اس پر سختی سے عمل درآمد ہونے لگا تو افغانستان میں آئے روز حکومتوں کے تختے الٹنے بیرونی جارحیت یا مداخلت اور دہشت گردی کا سلسلہ ختم ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے افغان عوام وسائل ہونے کے باوجود غربت اور پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں سیاسی استحکام سوا تین کروڑ عوام کے اس ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔
