تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور دوسرے عملے کے لیے نیا ضابطہ لباس (ڈریس کوڈ) متعارف

سلام آباد میں تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور دوسرے عملے کے لیے نیا ضابطہ لباس (ڈریس کوڈ) متعارف کروانے کا مقصد ڈھکے چھپے الفاظ میں پابندیاں لگانا ہے۔‘ 

یہ کہنا تھا اسلام آباد کے علاقے بارہ کہو میں واقع الحمد اسلامک یونیورسٹی کے استاد میاں امتیاز الرشید احمد کا، جن کے خیال میں نئے ضابطہ لباس کا اطلاق محض ایک رسمی کارروائی ہے، جسے کوئی سنجیدہ نہیں لے گا۔ 

تاہم یونیورسٹی آف لاہور کے اسلام آباد کیمپس میں سٹوڈنٹس افئیرز کی نگران مس طیبہ کا کہنا تھا کہ اس قسم کے اقدامات کا مقصد تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط کا نفاذ ہوتا ہے، نہ کہ پابندیاں لگانا۔ 

انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں طالب علموں کو تعلیم کے علاوہ تربیت بھی دی جاتی ہے، جس کے لیے اساتذہ اور وہاں موجود دوسرے لوگوں کا بہتر لگنا بہت ضروری ہے۔ 

یاد رہے کہ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) میں تعلیمی اداروں کے عملے کے لیے نئے ڈریس کوڈ کا اعلان کیا گیا ہے، جس میں خواتین اساتذہ پر جینز اور ٹائٹس اور مرد اساتذہ کو جینز اور ٹی شرٹ پہننے سے منع کیا گیا ہے۔ 

اسلام آباد میں ایک سرکاری کالج کی استاد نے بھی نئے ضابطہ لباس کی حمایت کرتے ہوئے کہا: ’اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اگر انتظامیہ اس قسم کے احکامات جاری کرتی ہے، یہ اصلا طالب علموں کی تربیت کا حصہ ہے، اسے پابندی کے طور پر نہ لیا جائے۔‘ 

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ایک استاد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’نہیں معلوم ہمارے حکومتی عہدیداروں کو یہ انوکھے خیالات کہاں سے آتے ہیں، یہ کوئی بات ہے کہ یہ لباس پہنو اور یہ نہ پہنو۔‘ 

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ کسی تعلیمی ادارے میں نصابی یا غیر نصابی عملے میں سے کوئی بھی غیر مہذب لباس نہیں پہنتا، تو اس حکم نامے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ 

میاں امتیاز الرشید احمد کے خیال میں پاکستان میں باتوں کو کھلے عام کہنا بھی بہت مشکل ہو گیا ہے، اسی لیے حکومتی اور انتظامی احکامات میں بھی ابہام سے کام لیا جاتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دو مختلف سوچیں رکھنے والے موجود ہیں جن میں مغرب کی طرف رجحان رکھنے والے اور مذہب کی طرف مائل لوگ شامل ہیں۔