جناب گورنر پنجاب معلوم کیجیے کہ پولیس کی ریٹنگ کیا ہے؟
ان دنوں ہر سیاسی شخصیت ریٹنگ کے بخار میں مبتلا ہے اور عوام ہیں کہ انہیں اس ملک میں صدمات کے دریا عبور کرنا پڑ رہے ہیں، ایک دریا عبور کرتے ہیں تو انہیں ایک نئے دریا کا سامنا ہوتا، تحریک انصاف جب اقتدار میں آئی تو انتخابی مہم میں ایک نعرہ لگایا تھا کہ دو نہیں ایک پاکستان، مطلب یہی تھا کہ ہر شہری قانون کے تابع ہوگا اور کوئی تمیز نہیں کی جائے گی، کوئی اپنی دولت اور سیاسی رتبے کی وجہ سے قانون سے بالاتر نہیں ہوگا، مگر ہم کیا دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہوگیا ہے؟ رائے عامہ کے حالیہ جائزہ کے مطابق ملک میں سب سے کرپٹ محکمہ پولیس کا ہے، یہ سروے نتائج گزشتہ دنوں ملکی اخبارات میں شائع ہوئے کسی صوبائی حکومت نے اور وزارت داخلہ نے اس کی تردید نہیں کی، گویا ان کی خاموشی سروے نتائج کو تسلیم کرنے کے مترداف ہے
جناب گورنر پنجاب
کمالیہ آپ کا شہر ہے، یہ ذرخیز خطہ ہے، اور یہاں اولیاء کے ماننے والے بھی رہتے ہیں اور یہ علاقہ اس خطہ کی ایک بڑی منڈی ہے جہاں اجناس فروخت ہوتی ہیں
مگر یہاں ایک اور منڈی بھی ہے جہاں ظلم بکتا ہے اور انصاف خریداجاتا ہے، جہاں انسانی عزت و وقار تہہ تیغ کیے جاتی ہے اور انسانیت شرما جاتی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر روز جنازے اٹھتے دیکھتے ہیں مگر ظالموں کو موت یاد نہیں ہے مگر ایک پیسہ ہے اور سماجی رتبہ جس کی وجہ سے ہر تھانے میں ہر طاقت ور کو21 توپوں کی سلامی دی جاتی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے انسانیت بھی بک چکی اس کی بھی ریٹنگ دیکھی جاتی ہے
حکومت لاکھ دعوی کرے کہ وہ ملک میں سماجی انصاف فراہم کر رہی ہے اور یکساں انصاف کی فضا بنا رہی ہے مگر یہ منجن نہیں بک سکتا کیونکہ حقائق بہت مختلف ہیں
تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو یہی سمجھا گیا کہ باہمی مساوت کے اصول پروان چڑھیں گے قانون اور انصاف سب کے لیے یکساں ہوگااور سب کے حقوق برابر ہوں گے لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا،آج بھی یہ معاشرہ امیر اور غریب لوگوں میں تقسیم ہے امیروں کے گروہ اور جتھے اتنے طاقت ور ہیں کہ وہ ہر قسم کی آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، قانون ان اور پولیس بھی ان کی، غریب کے لیے آہیں اور تھانوں میں دھکے
عوام اب بھی ماضی کی طرح حکمرانوں کے آج بھی رٹے رٹائے جملے سن رہے ہیں کہ حکومت غریبوں کی ہامی ہے
تحریک انصاف آئی تو سب نے کہا کہ تبدیلی آئی مگر بد قسمتی سب کچھ ویسے کا ویسا ہی ہے
جناب گورنر پنجاب
آپ کی خدمت کے لیے عرض ہے کہ ایک واقعہ ہی سن لیجیے
پیر محل میں ایڈیشنل جج کی عدالت سے ضمانت منسوخ ہونے پر پولیس کی موجودگی میں ملزم فرار ہوئے ہیں
مقدمہ ایف آئی آر نمبر 9/2022 پولیس اسٹیشن آروتی، پیرمحل۔
اروتی پولیس اسٹیشن کے مقدمہ ایف آئی آر نمبر 9/2022 کی سماعت 15.02.2022 کو ایڈیشنل سیشن جج پیرمحل کی عدالت میں ہوئی اور محمد عاصم ولد محمد نذیر کی عبوری ضمانت منسوخ ہونے کا حکم عدالت نے جاری کیا لیکن حیران کن طور پر ملزم گرفتار نہ ہو سکا پولیس کی موجودگی میں فرار ہوگیا ایسا کیوں ہوا یہ تو اب پولیس ہی بہتر بتا سکتی ہے،
اس کے دیگر دو ساتھی رمضان اور راشد بھی مرکزی ملزم کے ساتھ پیشی کے موقع پر موجود تھے اور انہوں نے آئی او اور آج جج کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا لیکن آئی او انہیں ملزم بنانے کو تیار نہیں، جب کہ ایف آئی آر میں ناک کی ہڈی توڑنے کی باقاعدہ شکائت درج کی گئی ہے
ایف آئی آر نمبر 9/2022 مورخہ 10.01.2022 کے تحت آروتی پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن ہمیشہ کی طرح ملزمین کو عبوری ضمانت حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا گیا تھا۔ کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج پیرمحل کی عدالت میں سماعت کے لیے ہوئی اور چالان عدالت میں پیش نہیں کیا گیا صرف ملزمان کو مزید فائدہ پہنچانے کے لیے ان کی ضمانت کی تصدیق ہو گئی۔
27.01.2022 کو ڈی ایس پی کمالیہ معمول کے مطابق پی ایس آروٹی کے دورے پر تھے اور علاقے کے لوگوں سے ملاقات کے دوران یہ معاملہ ان کے نوٹس میں لایا اور مثل دیکھ کر ڈی ایس پی نے تاخیر پر تشویش ظاہر کی اور دفعہ 452 لگانے کا حکم دیا لیکن تفتیشی دفتر کے اے ایس آئی رمضان ڈی ایس پی کے احکامات کی تعمیل کرنے سے گریزاں تھا کیونکہ اسے ایس ایچ او کی طرف سے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اس مثل کو آخری تاریخ سماعت یعنی 08.02.2022 کو بھی عدالت میں پیش نہ کریں۔
یہ معاملہ DPO T.T.Sing کے نوٹس میں 10.02.2022 کو شکایت نمبر 130 CCP کے ذریعے اور RPO فیصل آباد کے نوٹس میں شکایت نمبر 1132 ICC مورخہ 11.02.2022 کے ذریعے لایا گیا۔ ڈی پی او اور آر پی او نے ڈی ایس پی کمالیہ کو معاملے کو دیکھنے کی ہدایت کی اور ڈی ایس پی نے ایس ایچ او کو ہدایت کی کہ دفعہ 452 لگائیں اور مثل کو عدالت میں پیش کریں۔
01.02.2022 کو ایس ایچ او آروتی پولیس اسٹیشن نے دونوں فریقین کو بلایا اور شکایت کنندہ فریق پر ملزم فریق سے صلح کرانے کے لیے غیر ضروری دباؤ ڈالا۔ شکایت کنندہ نے انصاف فراہم کرنے کے بجائے ایس ایچ او کی ہدایت پر کوئی مصالحت کرنے سے عاجزی ظاہر کی تو وہ باغی ہو گیا اور ہر فریق کے کم از کم 10 افراد کو گرفتار کر کے شکایت کنندہ فریق کو صلح کے لیے گھٹنے ٹیک دیا۔
جناب گورنر پنجاب
رائے عامہ کا خیال ہے کہ تحقیقات اعلی سطح پرہو