آج عورت کے پاس جو مقام ہے وہ اس کی خود کی جدوجہد کا ثمر ہے لیکن ابھی ہمیں طویل سفر طے کرنا ہے۔بلاشبہ حالات تبدیل ہوئے ہیں خواتین کے مسائل میں کمی ہوئی ہے لیکن ختم نہیں ہوئے ۔خواتین کا عالمی دن منانے کا مقصد ہے کہ ہم اپنے مطالبات کو بار بار دہرائیں تاکہ ان مسائل کی یاد تازہ ہو اور ہمیں اپنا تجزیہ کرنے کا موقع ملے کہ ہم نے کیا حاصل کیا ہے اور ہم کیا حاصل نہیں کر پائے۔خواتین کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کی  بے حدضرورت ہے معاشی استحکام کے بغیر عورت مسائل کا شکار رہے گی ۔عورت کے مسائل کا براہ راست تعلق غربت سے ہے سب سے پہلے اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔زراعت میں عورت اہم کردار ادا کر رہی ہے چونکہ پیسہ اس کے ہاتھ میں نہیں جاتا اس لئے اس کا نہیں ذکر نہیں ۔ آج بھی ہمارے ہاں کئی جگہوں پر عورت کو پسند کی شادی کرنے پر موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا ہے آج بھی اسکی قرآن مجید سے شادی کی جاتی ہے آج بھی اسے جائیداد میں حصہ دینے میں ہچکچاہٹ سے کام لیا جاتا ہے، آج بھی فرسودہ رسومات اس کے پائوں کی بیڑیاں ہیں ،آخر کیوں اور کب تک؟

اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ’’آزادی کی تحریک ہو یا ملک میں جمہوری نظام کی جدوجہد کی بات‘‘ خواتین نے ہمیشہ بڑھ چڑھ حصہ لیااور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کی لیکن کسی قسم کی سختی ان کے عزم کو ختم نہ کر سکی۔پاکستان کی سیاسی تاریخ خواتین کی قربانیوں سے بھری پڑی ہے بڑے بڑے نام ہیںجنہوںنے اپنے کام سے ثابت کیا کہ وہ کسی بھی طور مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔جہاں دنیا میں ہر سطح پر تبدیلی رونما ہو رہی ہے وہاں سوسائٹی میں عورت کا کردار بھی تبدیل ہو رہا ہے اور پاکستانی خواتین نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہم مردوں سے کسی بھی طرح پیچھے نہیں ہیں۔

 ہمارے ملک کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے لیکن قومی زندگی میں ان کی شمولیت آٹے میں نمک کے برابرہے اس کی بنیادی وجہ فرسودہ معاشرتی تصورات اور روایات ہیں جن کے باعث عورت کا پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرنا،معاشی ،سیاسی اور دیگر تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لینا معیوب سمجھا جاتا ہے۔جب تک فیصلہ سازی میں خواتین کو شامل نہیں کیاجائے گا ملکی ترقی ممکن نہیں۔کوئی بھی شعبہ ہو خواتین مردوں سے تین گنا زیادہ کام کرتی دکھائی دیتی ہیں