سی ڈی اے کے افسر کیوں پریشان ہیں؟


اسلام آباد کے ایک اہم علاقے کی انتہائی قیمتی اراضی رئیل اسٹیٹ کاروباری لابی کے لیے نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کو دینے کی تجویز پر اسلام آباد کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے پالیسی ساز افسر دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں اور حکومت کے متعدد فیصلوں اور ترجیحات کے باعث پالیسی ساز افسروں کے تحفظات بڑھ رہے ہیں تجویز یہ ہے کہ اسلام آباد کے علاقے جی نائن اور ایف نائن کے درمیان فاطمہ جناح پارک کے سامنے فلیٹس تعمیر کرنے کے لیے یہ ساری پٹی نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کو دے دی جائے اس پٹی کی کل لمبائی دو کلو میٹر ہے جس پر وہ کمپنیاں رہائشی فلیٹس تعمیر کریں جنہیں حکومت کی جانب سے باقاعدہ ایک معاہدے کے بعد اجازت دی جائے لیکن اس اراضی کی قیمت کا تعین ایک بڑا مسلۂ ہے اور یہی بات سب سے بڑی رکاوٹ ہے سی ڈی اے کے انتظامی بورڈ نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے لیکن حکومت پر ایک سو سے زائد چھوٹے چھوٹے بلڈرز کی با اثر اور ذاتی کاروباری مفادات کی حامل ایک تعمیراتی تنظیم وزیر اعظم کے قریب تحریک انصاف کے سندھ کے اہم رہنماؤں کے ذریعے یہ اراضی حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے اگر یہ اراضی نفع نقصان کا اصل تخمینہ لگائے بغیر کسی خاص گروپ کے حوالے کر دی گئی تو یہ ملکی تاریخ کا ایک بڑا مالیاتی اسکینڈل ہوگا یہ بات قابل ذکر ہے کہ سی ڈی اے اسلام آباد میں قائم کچی بستیوں اور تجاوزات کے پھیلتے ہوئے جال کو روکنے کے لیے متحرک ہے لیکن ایک لابی کی سیاسی مداخلت کی وجہ سے یہ کام رکا ہوا ہے ہفت روزہ طانیاکی تحقیق کے مطابق ایک تعمیراتی گروپ جسے حکومت کی ایک بڑی لابی کی حمائت میسر ہے یہ سیاسی گروپ چاہتا ہے کہ اسلام آباد میں قائم اڑتیس کچی بستیوں میں پہلے مرحلے میں اسلام آباد کے اہم سیکٹرزکی تمام کچی بستیاں ختم کی جائیں اور ان کی جگہ کسی خاص منظور نظر ایک تعمیراتی گروپ کو یہاں رہائشی مسائل حل کرنے کے نام پر رہائشی فلیٹس تعمیر کرنے کا منصوبہ دیا جائے اس منصوبے کے لیے سنگا پور سمیت متعدد ممالک کی مثال دی جارہی ہے یہ تعمیراتی گروپ گزشتہ پانچ سال سے اسلام آباد میں سی ڈی اے زون ون کی حدود سے باہر متحرک ہے اور ان میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن پر منی لانڈرنگ کے بھی الزامات ہیں ان کی لابنگ کی وجہ سے سی ڈی اے بھی تنگ ہے لیکن یہ گروپ سی ڈی اے کے بورڈ میں شامل ہونے کے لیے بھی لابنگ کر رہا ہے سی ڈی اے کے جاری منصوبوں کے لیے بھی اس کی سرگرمیاں ایک بڑی رکاوٹ بن رہی ہیں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے اسلام آباد میں ایک بڑے شہرت یافتہ کمرشل مال انتظامیہ سے سرکاری زمین خالی کرائی ہے اور سی ڈی اے بلیو ایریا توسیع منصوبے کے لیے اپنے ورکنگ آرڈر کے اندر رہ کر کام کرنا چاہتا ہے تاہم اسے تحریک انصاف کے اندر ایک خاص گروپ کی حمائت یافتہ تعمیراتی لابی کی جانب سے سیاسی مداخلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے پیپلزپارٹی کے دور میں بھی ایسی ہی تجاویز سامنے آئی تھیں اور اس وقت یوسف رضا گیلانی نے وزیر اعظم کی حیثیت سے پیپلزپارٹی کے ایک مقامی اہم رہنماء کو سی ڈی اے میں وفاقی مشیر تعینات کرکے بلیو ایریا توسیع منصوبے پر کام کیا تھا اور بہت سے پلاٹس تعمیراتی فرموں کو فروخت کر دیے تھے مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے دوران اراضی کی قیمت کے تعین کے لیے ایف بی آر کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ ہر علاقے کی اہمیت کے پیش نظر اس کی ویلیو کا تعین کرے اس فیصلے کو بہتر سمجھنے کے باوجود اپنے کاروباری مفاد پر ذد پڑنے کی وجہ سے اس وقت بلڈرز اور لینڈ کے شعبے میں کام کرنے والے سرمایہ کاروں نے مزاحمت کی تھی تاہم مسلم لیگ حکومت اپنے فیصلے پر قائم رہی تاہم اب رئیل اسٹیٹ کاروباری لابی کی وجہ سے یہ فیصلہ تبدیل کردیا گیا ہے

اپنا تبصرہ لکھیں