گھر سے نکلنا ہوگا


سلمان احمد صدیقی (وصفیٓ)

صد لازم ہے اپنے ضمیر کی آواز کا، خود کو سنائی دینا
اور پھر اسی آواز پر، بر حق کے حق میں گواہی دینا

اس بار برادری، لسانی, گروہی سیاست کو چھوڑنا ہوگا
صاحبِ کردار کا چناؤ کر کے، فرسودہ روایت کو توڑنا ہوگا

سبز باغ دکھانے والے بازیگر، اک بار پھر گھر گھر جائیں گے
وہی پرانا سودا نئے لفافوں میں، دوبارہ بیچنے لائیں گے

اب پھر کچھ ایسا نہیں کرنا، جیسے تم کچھ جانتے نہیں
ضمیر فروشوں کے بناوٹی چہرے، جیسے پہچانتے نہیں

فیصلہ کرتے ہوۓ کوئی وسوسہ اپنے دل میں نہ آنے دینا
دل سے جو بھی صدا آۓ، دل کو اسی پر مہر لگانے دینا

نئے حکمرانوں کا چناؤ، آج تمھارے اپنے ہاتھ میں ہے
ہاں مگر یاد رکھنا پرانا شکاری، آج پھر تمھاری گھات میں ہے

ظلمتِ شب کے سامنے، پھر سے سرِ تسلیم خم نہیں کرنا
اپنی مہر سے، دوبارہ اک شبِ تاریک رقم نہیں کرنا

گر روشنی کی تمن٘ا ہے، تو راۓ دہی کے لۓ گھر سے نکلنا ہوگا
وصفیٓ اپنے بچوں کا مستقبل، صرف ہم ہی کو بدلنا ہوگا

کراچی – 4 فروری 2024

اپنا تبصرہ لکھیں