آج اکھاں وارث شاہ نوں۔ باعث افتخار۔ انجنیئر افتخار چودھری
مجھے صرف یہ بتا دیں کہ اس نوجوان کا یہ حال کس نے کیا کوئی ہے جو ریحانہ ڈار کے اس بچے پر ہونے والے ظلم کا جواب دے سکے دس ماہ اندر رہا کس قسم کی کوٹھڑی میں ہو رہا ہوں میں نے عثمان ڈار اور عمر ڈار کے ساتھ ایک اچھا وقت گزارا ہے ایک وقت میں ا عمر ڈار میں اور راجہ عامر زمان تینوں اکٹھے تھے دھرنے کے دنوں میں راجہ صاحب ڈپٹی سیکرٹری جنرل تھے اور ہم دونوں ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات تھے کہ کیا زمانہ تھا اور انہی دنوں میں سرن سنگھ بھی ہمارے ساتھ تھے کنٹینر کے نیچے بہت سارے دوست مل بیٹھے تھے اج ان دونوں کی تصویر دیکھی تو ایسا لگا کہ صدام حسین گرفتار ہوئے ہیں اج یہ اپنی ماں کے ساتھ کھڑا ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا قصور کیا تھا پاکستان کے وہ ادارے جو ہماری نظریاتی سرحدوں کے بھی محافظ تھے اور جغرافیائی سرحدوں کے بھی حالت سے جن کے بارے میں نور جہاں نے یہ کہا تھا کہ
اے پتر ہٹا تے نہیں وکدے
تو لبدی پھریں بازارکڑے
اے سودا نقد بھی نہیں ملدا
تو منگدی پھرے ادھار کرے
کیا یہ انہوں نے اس کا یہ حال کیا یا پھر پنجاب کی پولیس نے یہ حال کیا
ان کا حال دیکھ کر عمر چیمہ کا حال دیکھ کر اعجاز چوہدری کا حال دیکھ کر صنم جاوید کی صورتحال دیکھ کر امیتا پرتم نے شاید اسی لیے کہا تھا
اج اکھاں وارث شا نو اٹھ گھبرا وچوں بول
اج کتاب عشق دا ایک نواں ورقہ پھول
ایک روئی سی تھی پنجاب دی تو لکھ لکھ مارے وین اج سبے دیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن
اٹھ درد مندا دیا دردیا
اج تک اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں
تے لہو دی پری جناب
دھرتی گئے لہو وسیاں
تے قبراں پئیاں چہون
جی تو چاہتا ہے کہ پوری نظم لکھ دوں اور ایک ہوکہہ اتا ہے جو نکل جاتا ہے ایک آہ اتی ہے جو دب جاتی ہے ان لوگوں کا قصور کیا تھا اج یہ تصویر ان دو بھائیوں کی تصویر جی چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر لگا دی جائے اس لیے کہ ہمیں سپریم کورٹ کے سامنے کوئی فائدہ نظر نہیں اتا کہ جن کو سوائے اپنے ایک خاص مقصد کے لیے اپنی خاص جماعت کے لیے ان لوگوں نے جو کچھ کرنا ہے وہ ہمیں پتہ ہے آج قومی اسمبلی کا اجلاس بھی ہوا وہاں بیرسٹر گوہر علی خان نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ درزوں سے ہو کے اسمبلی حال میں پہنچ گئے وہ اجنبی لوگ جن کو ان کے حلقے کے لوگوں نے مسترد کر دیا وہ الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے بل بوتے پر پہنچ گئے اور کہاں پہنچ گئے جو ان کے خواب میں بھی نہ تھا اج ہمارے پاکستان کے نمائندگان ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تم فارم 45 والے ہو یا فارم 47 والے ہو میں کہتا ہوں ڈاکٹر نثار چیمہ صاحب کو میں سلام پیش کروں گا کہ جو اپنے حلقے سے ہار گئے اور ان سے رابطہ کیا گیا کہ اؤ ڈاکٹر صاحب اگر اپ چاہتے ہیں تو اپ کو بھی ہم جتوا دیتے ہیں تو انہوں نے حامد ناصر چٹھہ کو فون کرتے ہوئے کہا کہ اپ کا بیٹا جیت گیا ہے میں ہار گیا ہوں میں اپ کو مبارکباد دیتا ہوں یہ لوگ ابھی تک زندہ ہیں اور ہم ابھی تک شرمندہ ہیں کہ بہت سارے لوگ زندہ رہنے کی بجائے ڈاکٹر نثار صاحب کی طرح کسی دوسرے کو مبارکباد دینے کی بجائے ڈھول اور ڈھمکے سے اپنی فتح کا جشن مناتے ہیں میں بہت سارے سوال پاکستان کے ان لوگوں سے کرنا چاہتا ہوں لیکن میں صرف پنڈی کی بات کرتا ہوں کہ پنڈی میں خان صاحب نے کہا تھا کہ میں کسی کو بھی ٹکٹ دے دوں گا وہ ٹکٹ لیکن جیت جائے گا کچھ لوگ اس غلط فہمی میں ہیں کہ ہمیں ووٹ اس وجہ سے مل گئے کہ ہم خوبصورت تھے ہم لوگوں کے دلوں میں رہتے تھے لیکن ایسا نہیں ہو سکا پورے پنڈی کا حال اپ نے دیکھا کہ لوگ بری طرح ہارے جو اٹھ مئی کو رات گئے تک جیتے وہ اگلی صبح ہار گئے تو حامد میر نے بڑی خوبصورت بات کی کہ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تم اٹھ مئی والے ہو یا نو مئی والا میں اتنا کہوں گا میرے دوستو اپ اس جعلی مینڈیٹ کو لے کر اج اس قومی اسمبلی میں پہنچے تو جب تیار ہو رہے تھے اور ائینے کے سامنے کھڑے تھے تو اپ کو شرم نہیں ائی یعنی کہ اپ شہریار ریاض کی سیٹ جرلو پھیر کے اپنے نام کر کے شیخ رشید کو بھی اللہ تعالی نے اسی سیٹ سے ہروایا ہے اللہ پاک مغرور لوگوں کو ان کا سر نیچا کر کے دکھاتا ہے یہ وہی شیخ رشید ہے جو پاکستان تحریک انصاف کے لوگوں کو صحیح طریقے سے ملتا بھی نہیں تھا مجھے وہ وقت یاد ہے سردیوں کے دن جب یہ ریلوے منسٹر بنے تو میں ان کے پاس چلا گیا کیونکہ یہ میرے لیے بہت سارے اچھے جذبات رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ میں تمہارے لیے بہت کچھ کروں گا تم بڑے زبردست بندے ہو تم بیٹھ جاؤ میرے بھتیجے کے حق میں بھئی ہم نے تو بیٹھنا ہی تھا لیکن جب میں نے ان سے بات کی کہ دیکھیں اپ کی ریلوے منسٹری میں ایک پوزیشن خالی ہے جو اپ مجھے دے سکتے ہیں تو کہنے لگا کون سی پوزیشن کون سی ریلوے کون سی جگہ وہ اعظم خان نہیں مانتا اور ہمارے کارکنوں کے ساتھ اس طرح فرعون کے لہجے میں بات کرتا تھا کہ جاؤ میں تو عمران خان سے سیٹیں مانگ کے لیے تم کون ہوتے ہو اج اللہ نے اس کو رسوا کر دیا اگلی سیٹ کی بات کرتا ہوں کی بات کرتا ہوں وہاں بھی جلو پھیرا گیا اور دانیال چودری بھی 57 کو ہڑپ کر گیا پاکستان کے انتخابات پر دنیا کا کوئی شخص یہ نہیں کہتا کہ یہ اچھے صاف ستھرے ہوئے اج جو کہتے ہیں کہ ائی ایم ایف کو خط لکھنا بری بات ہے ہم نہیں لکھتے ائی ایم ایف کو خط ہمیں ہماری عدالتیں کیوں نہیں انصاف دیتی ہم قاضی فائز عیسی کے پاس جاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ انصاف کرو وہ ہمیں الیکشن کمیشن کی طرف دھکیل دیتے ہیں اور الیکشن کمیشن کے سربراہ کے اوپر ارٹیکل سکس لگنا چاہیے پتہ نہیں یہ ارٹیکل سکس کب لگے گا اور کب خناس اور گندے لوگ اپنے انجام کو پہنچیں گے وہ کوئی کہہ رہے تھے کہ یہ اپ ہی نے دیا تھا ہاں ہم نے غلطی کی تھی ہم اس وقت فوج کی سربراہ کی بات کو من و عن مان رہے ان کی ایکسٹینشن بھی کر رہے تھے اگرچہ ہماری سیٹیں زیادہ تھیں لیکن وہ بھی ایک سازش کے تحت کم کی گئی اور ہمیں مختلف پارٹیوں کا سہارا دے کر حکومت دے گئی جس کا ہمیں احساس عدم اعتماد کی تحریک میں ہوا کہ فوج نے ان لوگوں کو واپس بلا کر ہمیں عدم اعتماد کی تحریک میں شکست دے دی
لیکن ہمیں ان لوگوں کا سہارا دیا گیا یہ باپ ہے یہ ایم کیو ایم میں یہ فلاں ہے یہ فلاں ہیں فلاں اور اپ بنائیں حکومت اور بنا لیا حکومت ایسی حکومت بنائی جو کسی وقت بھی گرائی جا سکتی تھی اور اج لوگ کہتے ہیں کہ خدارا عمران خان نواز شریف اور زرداری مولانا فضل الرحمان صاحب پاکستان کی ساری پارٹیاں اکٹھی ہو کے کہیں کہ ہم اج کے بعد فوج کو اتنی تکلیف نہیں دیں گے اور نہ ہی ہم پاکستان کے نظریے کو انڈیا کے ہاتھوں بیچیں گے اگر یہ سیاست دان صحیح معنوں میں جمہوریت قائم کرتے تو کوئی طالع آزما پاکستان کا مارشل لا نہ لگاتا ہوں یہی سیاستدان جیت کر پاکستان کے دو قومی نظریے کو بیچ دینے کی بات کرتے ہیں تو اسی لیے پھر دوسرا فریق فوج کے ساتھ مل جاتا ہے اسٹیبلشمنٹ میں کوئی جلدی نہیں ہے کہ وہ ہر وقت اپ کے اوپر نظر رکھے
اپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
اگر پاکستان کے سیاست دان جمہوریت پر عمل کرتے تو پاکستان تحریک انصاف کی ضرورت ہی نہ ہوتی اگر انصاف کرتے مسلم لیگ نون والے اور پیپلز پارٹی والے تو پھر تو عمران خان کی گنجائش نہیں تھی لیکن اپ نے جمہوریت کو بیچا اور اج حالت یہ ہے کہ اپ اور اپ کے خاندان امیر ہو گئے اور غریب غریب تر ہو گیا خدا کی قسم مجھے رونا اتا ہے اج میں تاشیر کمپنی کے دفتر میں گیا تو سینکڑوں لوگ باہر فٹ پاتھ پر بیٹھے اپنے ہاتھوں میں ویزے لیے وہ منتظر تھے اور ان بیچاروں کو لوٹنے والے بھی نچلی منزل پر موجود تھے ایک تو ویزا مہنگا دوسرا اس کے اوپر ویزا لگوانے کا خرچہ بہت زیادہ مہنگا تو کیوں نہیں یہ لوگ پاکستان میں رہ جاتے 1990 میں میاں نواز شریف صاحب نے انجینیئرز کمیونٹی کے لوگوں کو کہا اور مجھے مخاطب ہو کر کہا کہ انجینئر صاحب اپ یہاں کے جدہ کے کونسلیٹ کی بات کرتے ہیں کہ اپ کا خیال رکھیں میں تو یہ چاہتا ہوں کہ اپ کو پاکستان واپس لے جاؤں عمران خان کا خواب تو یہ تھا کہ بیرون ملک پاکستانی وہ جو کہتے تھے شہزادہ محمد بن سلمان کو کہ یہ لوگ میرے دلوں کے قریب رہتے ہیں اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ ہم پاکستان کے باہر سعودی عرب میں یہ لوگ میں بند پاکستانیوں کو سہولت دینے کی بات کرتے ہیں یہ سفر کہاں سے شروع ہوا یہ نواز شریف کا خواب تھا کہ ہمیں بیرون ملک پاکستانیوں کو پاکستان لائے گا لیکن وہ جاتے جاتے اس پاکستان کو اندھے کنویں میں دھکیل گیا اس سے وہاں تو اپنی مل لگا لی اور اس نے مدینہ منورہ میں اپنی جائیدادیں خرید لیں اور وہاں سٹیل کو خرید کر اپنا نفع کما لیا لیکن ہمارے لوگ ترستے رہ گئے اور میں اس تحریر کو ختم کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے جواب دیں کہ کتنے ماؤں کے بچے اپ نے غائب کیے اج مسنگ پرسن کی بات ہو رہی تھی تو کاکڑ صاحب تنک کے مطیع اللہ جان کو الٹے سیدھے جواب دے رہے تھے تو کوئی کہہ رہا تھا کہ کاکٹرصاحب کو بھی کوہٹہ جانا ہی ہے لیکن ایسے لوگ کوئٹہ نہیں جایا کرتے ان لوگوں کے اپنے جزیرے ہوتے ہیں یہ امریکہ کی چیزیں وہاں واپس جائیں گے عمر ڈار صاحب اور عثمان ڈار صاحب اور اپ کی والدہ ریحانہ ڈار کیا کہتے ہیں کہ شیراں دے پتر شیر ہوندے نے لیکن شیرنی دے پتر جس طرح اپ نے کہا اپ واقعی شیر نکلیں اور شیرنی نے خواجہ اصف کو یوں رگیدہ کہ اگر اس میں کچھ تھوڑی سی شرم اور تھوڑی سی حیا ہوتی تو وہ اسے اسمبلی میں نہ پہنچتا مبارک ہو پیرسٹر گوہر علی خان مبارک ہو عمر ایوب صاحب علی محمد خان صاحب اور میرے دوست جتنے بھی اسمبلی میں پہنچے ہیں اللہ تعالی اپ کو خوش رکھے ہاں ان کو جوتے نہ ماریں ان کے اوپر بوتلیں مت پھینکیں ان کو بٹھا کے سامنے شرمائیں ان کو کہ ظالموں تم کدھر سے آ بیٹھے ہو کہاں سے ووٹ لے لیا ان کا نام ہی رکھ دیں نو فروری والے اورکیونکہ نو مئی کا واقعہ وہ بھی تو اس کا جلوس نکل گیا اس پورے الیکشن میں لوگوں نے اس کو نہیں مانا خدارا اسٹیبلشمنٹ سمجھ جائیں اور حالیہ الیکشن میں قوم نے عمران خان کو عزت بخشی ہے