رمضان المبارک کے قریب آتے ہی بازاروں میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا جو اس بات کا مظہر ہے کہ حکومت کی نظام پر گرفت ایسی نہیں ہے کہ ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز مافیاز کو اس کی کوئی پروا ہو۔ پورے ملک میں ہزاروں افسران انتظامی عہدوں پر کام کررہے ہیں اور انھیں بھرتی ہی اس مقصد کے لیے کیا جاتا ہے کہ وہ نچلے درجے تک گورننس کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ اسی کام کے لیے انھیں دوسرے سرکاری ملازموں کے مقابلے میں کئی گنا تنخواہ بھی دی جاتی ہے، گاڑیاں، گھر، عملہ اور دیگر مراعات و سہولیات اس کے علاوہ ہیں لیکن یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ بیوروکریسی گورننس کو بہتر بنانے کی بجائے ساری توانائی اور وسائل صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرنے پر خرچ کرتی ہے اسی لیے ملک آج اس حال کو پہنچ چکا ہے کہ عام آدمی کو ریاست اور جمہوریت پر اعتماد نہیں ہے۔
اب وزیراعظم محمد شہباز شریف نے یہ اعلان تو کردیا ہے کہ رمضان ریلیف پیکیج کا حجم ساڑھے 7 ا رب روپے سے بڑھا کر ساڑھے 12 ارب روپے کردیا گیا ہے اور پیکیج کا حجم بڑھانے کے علاوہ اس کا دائرہ کار مزید وسیع کرنے کی ہدایت بھی جاری کی گئی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد کیسے اور کس حد تک ہوتا ہے
